آیت 57
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا مُّہِیۡنًا﴿۵۷﴾

۵۷۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے ان کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ: اللہ کو اذیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت دینا جو شان الٰہی میں گستاخی ہے جیسے اللہ کے لیے فرزند کا قائل ہونا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو اذیت نہیں ہوتی تاہم شان الٰہی کے منافی ہونے کی وجہ سے اسے اذیت سے تعبیر فرمایا ہے۔

بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اللہ کی شان اس بات سے اعلیٰ و ارفع ہے کہ کوئی اسے اذیت پہنچا سکے۔ یہاں اللہ کو اذیت کا ذکر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت بیان کرنے کے لیے ہوا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت اللہ کی اذیت ہے۔

۲۔ وَ رَسُوۡلَہٗ: رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت کے بارے میں تفصیل سورۂ توبہ آیت ۶۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اذیت کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:

انّما فاطمۃ بضعۃ منّی یوذینی ما آذاھا۔ (صحیح مسلم۔ بحار ۲۹: ۳۳۶)

فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو فاطمہ کو اذیت دے اس نے مجھے اذیت دی ہے۔

۳۔ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ: لعنت رحمت خدا سے دور ہونے کے معنوں میں ہے۔ دنیا میں حق کا راستہ نہ پانا لعنت ہے۔ جیسے فرمایا:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ﴿۲۳﴾ (۴۷ محمد: ۲۳)

یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔

اور آخرت میں لعنت کا مطلب عذاب میں مبتلا ہو جانا ہے۔


آیت 57