خٰلِدِیۡنَ فِیۡہِ ؕ وَ سَآءَ لَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ حِمۡلًا﴿۱۰۱﴾ۙ

۱۰۱۔ جس میں یہ لوگ ہمیشہ مبتلا رہیں گے اور قیامت کے دن یہ ان کے لیے بدترین بوجھ ہو گا۔

100۔ 101 جس نے بھی اس ذکر سے، یعنی ان عبرتوں سے منہ موڑ لیا اس نے اپنی پشت پر گناہوں کا بوجھ اٹھا لیا۔ یہ بوجھ اس قسم کا ہو گا جو اس کی پشت پر ہمیشہ سوار رہے گا۔

یَّوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ وَ نَحۡشُرُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ یَوۡمَئِذٍ زُرۡقًا﴿۱۰۲﴾ۚۖ

۱۰۲۔ اس دن صور میں پھونک ماری جائے گی اور ہم مجرموں کو جمع کریں گے (خوف کے مارے) اس روز جن کی آنکھیں بے نور ہو جائیں گی۔

102۔ قیامت کے دن تمام مخلوقات کو جمع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو قدم اٹھایا جائے گا اسے صور میں پھونکنے سے تعبیر کیا ہے جو ہمارے لیے قریب الفہم ہے اور مجرموں کو نابینائی کی حالت میں اٹھایا جائے گا۔

یَّتَخَافَتُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا عَشۡرًا﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ (اس وقت) وہ آپس میں دھیمے دھیمے کہیں گے(دنیا میں) تم صرف دس دن رہے ہو گے۔

نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ یَقُوۡلُ اَمۡثَلُہُمۡ طَرِیۡقَۃً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا یَوۡمًا﴿۱۰۴﴾٪

۱۰۴۔ ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ کرتے ہیں جب ان میں سے زیادہ صائب الرائے کا یہ کہنا ہو گا کہ تم تو صرف ایک دن رہے ہو۔

103۔ 104 قیامت کی حقیقی اور ابدی زندگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد دنیاوی عارضی زندگی کی بے مائیگی سامنے آ جائے گی اور اس پوری زندگی کو صرف دس دن تصور کریں گے اور جو زیادہ صائب الرائے ہو گا، جسے آخرت کی ابدی زندگی کا صحیح ادراک ہو گا وہ اس کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کو ایک دن شمار کرے گا اور اگر حیات برزخی ہوئی تو عالم برزخ کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہو گا کہ تھوڑے دن گزارے ہیں۔ یعنی آخرت کی حقیقی زندگی سامنے آنے کے بعد دوسری زندگیوں کی بے وقعتی سامنے آئے گی۔

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡجِبَالِ فَقُلۡ یَنۡسِفُہَا رَبِّیۡ نَسۡفًا﴿۱۰۵﴾ۙ

۱۰۵۔ اور یہ لوگ ان پہاڑوں کے بارے میں آپ سے پوچھتے ہیں پس آپ کہدیجئے: میرا رب انہیں اڑا کر بکھیر دے گا۔

فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفۡصَفًا﴿۱۰۶﴾ۙ

۱۰۶۔ پھر اسے ہموار میدان بنا کر چھوڑے گا۔

لَّا تَرٰی فِیۡہَا عِوَجًا وَّ لَاۤ اَمۡتًا﴿۱۰۷﴾ؕ

۱۰۷۔ نہ آپ اس میں کوئی ناہمواری دیکھیں گے نہ بلندی۔

105 تا107۔ سوال ہوا کہ روز قیامت پہاڑوں کی کیا صورت ہو گی؟ جواب میں فرمایا پہاڑ نابود ہو جائیں گے اور اس کرہ ارض کی عمر اختتام کو پہنچے گی اور اس کی موجودہ کیفیت تبدیل ہو کر پورا کرہ ارض ایک ہموار میدان بن جائے گا۔

یَوۡمَئِذٍ یَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَہٗ ۚ وَ خَشَعَتِ الۡاَصۡوَاتُ لِلرَّحۡمٰنِ فَلَا تَسۡمَعُ اِلَّا ہَمۡسًا﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ اس دن لوگ منادی کے پیچھے دوڑیں گے جس میں کوئی انحراف نہ ہو گا اور رحمن کے سامنے آوازیں دب جائیں گی، پس آپ آہٹ کے سوا کچھ نہ سنیں گے ۔

108۔ قیامت کے دن لوگ پکارنے والے کی ایسی اتباع کریں گے جس میں کسی قسم کی کوتاہی یا انحراف نہ ہو گا۔ چونکہ روز قیامت یوم حساب ہے اور حکم صرف اللہ کا چلے گا۔ دنیا کی طرح آزاد نہیں ہیں کہ کوئی سرکشی کر سکے، حتیٰ کہ اونچی آواز میں بات بھی نہیں کر سکیں گے۔

یَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوۡلًا﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے ۔

109۔ قیامت کے دن ہر مجرم کو اپنے جرم کی سزا ملے گی۔ یہاں اللہ کی عدالت میں عدل و انصاف کے ساتھ ہونے والے فیصلے کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، لہٰذا کسی کی شفاعت فائدہ مند نہیں ہو گی۔ یہاں دو حالتوں کی استثناء ہے: اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ ۔ قیامت کے دن اذن خدا کے بغیر کوئی بات تک نہیں کر سکے گا کیونکہ روز قیامت صرف اللہ کی حاکمیت ہو گی۔ علل و اسباب کی تاثیر ختم ہو جائے گی جیسا کہ دنیا میں ہے۔ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوۡلًاا ۔ دنیا میں اللہ اس شخص کی بات پسند کرتا ہے جو اس کے عمل کے عین مطابق ہو اور اس کا عمل اس کے قول کے خلاف نہ ہو۔ آخرت میں بھی اللہ کی مزاج شناس ہستیاں ہوں گی جو صرف اللہ کی مرضی کے مطابق شفاعت کریں گی۔

یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِہٖ عِلۡمًا﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ اور وہ لوگوں کے سامنے اور پیچھے کی سب باتیں جانتا ہے اور وہ کسی کے احاطہ علم میں نہیں آسکتا۔

110۔ متعد دآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت کا تعلق علم سے ہے۔ یعنی اعمال عباد کا علم ہو تو شفاعت کے لیے گنجائش بنتی ہے اور دنیا میں جو لوگ بندوں کے اعمال پر شاہد ہیں ان کو اللہ اعمال عباد پر آگاہ کرتا ہے۔ اس لیے قیامت کے دن ان کو شفاعت کا حق مل سکتا ہے۔