قَالُوۡا لَنۡ نَّبۡرَحَ عَلَیۡہِ عٰکِفِیۡنَ حَتّٰی یَرۡجِعَ اِلَیۡنَا مُوۡسٰی ﴿۹۱﴾

۹۱۔ وہ کہنے لگے: ہم موسیٰ کے ہمارے پاس واپس آنے تک برابر اسی کی پرستش میں منہمک رہیں گے۔

91۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصی علیہ السلام کی نصیحت کو ٹھکرا دیا البتہ فیصلے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی تک کے انتظار کا بھی اظہار ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر وقت کے رسول واپس نہ آتے تو ساری امت گوسالہ پرست ہو جاتی اور اجماع امت کو اس پر دلیل کے طور پر پیش کرتے۔

قَالَ یٰہٰرُوۡنُ مَا مَنَعَکَ اِذۡ رَاَیۡتَہُمۡ ضَلُّوۡۤا ﴿ۙ۹۲﴾

۹۲۔ موسیٰ نے کہا : اے ہارون! جب آپ دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں

اَلَّا تَتَّبِعَنِ ؕ اَفَعَصَیۡتَ اَمۡرِیۡ﴿۹۳﴾

۹۳۔ تو میری پیروی کرنے سے آپ کو کس چیز نے روکا؟ کیا آپ نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟

قَالَ یَبۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡیَتِیۡ وَ لَا بِرَاۡسِیۡ ۚ اِنِّیۡ خَشِیۡتُ اَنۡ تَقُوۡلَ فَرَّقۡتَ بَیۡنَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ لَمۡ تَرۡقُبۡ قَوۡلِیۡ﴿۹۴﴾

۹۴۔ ہارون نے جواب دیا: اے ماں جائے! میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑیں، مجھے تو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔

94۔ معلوم ہوتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو سر اور داڑھی سے پکڑ کر مارنا چاہا۔ چنانچہ سورہ اعراف آیت 150 میں آیا ہے: وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِيْہِ يَجُرُّہٗٓ اِلَيْہِ اور اپنے بھائی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔

قَالَ فَمَا خَطۡبُکَ یٰسَامِرِیُّ﴿۹۵﴾

۹۵۔ کہا : اے سامری! تیرا مدعا کیا ہے؟

قَالَ بَصُرۡتُ بِمَا لَمۡ یَبۡصُرُوۡا بِہٖ فَقَبَضۡتُ قَبۡضَۃً مِّنۡ اَثَرِ الرَّسُوۡلِ فَنَبَذۡتُہَا وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتۡ لِیۡ نَفۡسِیۡ﴿۹۶﴾

۹۶۔ اس نے کہا: میں نے ایسی چیز کا مشاہدہ کیا جس کا دوسروں نے مشاہدہ نہیں کیا پس میں نے فرستادہ خدا کے نقش قدم سے ایک مٹھی(بھر خاک) اٹھا لی پھر میں نے اسے (بچھڑے کے قالب میں) ڈال دیا اور میرے نفس نے یہ بات میرے لیے بھلی بنا دی۔

96۔ سامری نے خود یہ بات بھی گھڑ لی تھی کہ رسول کے قدموں کی مٹی کی یہ کرامت تھی کہ گوسالہ میں یہ آواز آ گئی۔ ممکن ہے رسول سے مراد خود حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوں یا جبرئیل، جبکہ گوسالہ کی ساخت اس طرح تھی کہ اس سے ہوا گزرتی تو آواز نکلتی تھی۔

قَالَ فَاذۡہَبۡ فَاِنَّ لَکَ فِی الۡحَیٰوۃِ اَنۡ تَقُوۡلَ لَا مِسَاسَ ۪ وَ اِنَّ لَکَ مَوۡعِدًا لَّنۡ تُخۡلَفَہٗ ۚ وَ انۡظُرۡ اِلٰۤی اِلٰـہِکَ الَّذِیۡ ظَلۡتَ عَلَیۡہِ عَاکِفًا ؕ لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنۡسِفَنَّہٗ فِی الۡیَمِّ نَسۡفًا﴿۹۷﴾

۹۷۔موسیٰ نے کہا: دور ہو جا(تیری سزا یہ ہے کہ ) تجھے زندگی بھر یہ کہتے رہنا ہو گا مجھے ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لیے ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں ہے اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس (کی پوجا) میں تو منہمک تھا، ہم اسے ضرور جلا ڈالیں گے پھر اس (کی راکھ ) کو اڑا کر دریا میں ضرور بکھیر دیں گے ۔

97۔ یعنی اسے معاشرے سے اس طرح جدا کر دیا گیا کہ وہ خود اس کا اعلان کرتا پھرے: خبردار مجھے چھونا نہیں۔ ممکن ہے اسے ایسی بیماری میں مبتلا کر دیا گیا ہو جس سے وہ اچھوت بن کر رہ گیا ہو۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بد دعا سے کوڑھ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر قریب آنے والے کو مطلع کرتا رہتا تھا کہ میں ناپاک ہوں، مجھے چھونا نہیں۔

اِنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ وَسِعَ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا﴿۹۸﴾

۹۸۔ بتحقیق تمہارا معبود تو وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔

98۔ یعنی معبود وہ ہوتا ہے جو اپنی معبودیت میں یکتا ہو۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جب کسی معبودیت میں شرکت آ جائے تو وہ باطل ہے۔

کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ مَا قَدۡ سَبَقَ ۚ وَ قَدۡ اٰتَیۡنٰکَ مِنۡ لَّدُنَّا ذِکۡرًا ﴿ۖۚ۹۹﴾

۹۹۔ (اے رسول) اسی طرح ہم آپ سے گزشتگان کی خبریں بیان کرتے ہیں اور ہم نے آپ کو اپنے ہاں سے ایک نصیحت عطا کی ہے۔

99۔ گزشتہ قوموں کی سرگزشت میں آنے والی قوموں کے لیے درسہائے عبرت ہوتے ہیں جن سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔

مِنۡ لَّدُنَّا ذِکۡرًا : ذکر سے مراد قرآن مجید ہے اور ممکن ہے حوادث و واقعات کو ذکر کہا ہو چونکہ ان میں انسان کے لیے عبرتوں، اخلاقیات اور احکام وغیرہ پر مشتمل نصائح موجود ہیں۔

مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡہُ فَاِنَّہٗ یَحۡمِلُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وِزۡرًا﴿۱۰۰﴾ۙ

۱۰۰۔ جو اس سے منہ موڑے گا پس بروز قیامت وہ یقینا ایک بوجھ اٹھائے گا۔