آیات 102 - 104
 

یَّوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ وَ نَحۡشُرُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ یَوۡمَئِذٍ زُرۡقًا﴿۱۰۲﴾ۚۖ

۱۰۲۔ اس دن صور میں پھونک ماری جائے گی اور ہم مجرموں کو جمع کریں گے (خوف کے مارے) اس روز جن کی آنکھیں بے نور ہو جائیں گی۔

یَّتَخَافَتُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا عَشۡرًا﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ (اس وقت) وہ آپس میں دھیمے دھیمے کہیں گے(دنیا میں) تم صرف دس دن رہے ہو گے۔

نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ یَقُوۡلُ اَمۡثَلُہُمۡ طَرِیۡقَۃً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا یَوۡمًا﴿۱۰۴﴾٪

۱۰۴۔ ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ کرتے ہیں جب ان میں سے زیادہ صائب الرائے کا یہ کہنا ہو گا کہ تم تو صرف ایک دن رہے ہو۔

تشریح کلمات

زُرۡقًا:

( ز ر ق ) نیلاہٹ اور نابینا کے معنوں میں ہے۔

امثل:

( م ث ل ) اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اقرب الی الخیر ہو۔ مثالی، نمونہ۔

تفسیر آیات

قیامت کے دن تمام مخلوقات کو جمع کرنے کے لیے جو آواز دی جائے گی اس کو صور کہتے ہیں اور مجرموں کو نابینائی کی حالت میں اٹھایا جائے گا:

وَ نَحۡشُرُہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ عُمۡیًا ۔۔۔۔ ( ۱۷ اسراء:۹۷)

ہم ان کو قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے جمع کریں گے۔۔۔۔

قیامت کی حقیقی اور ابدی زندگی کا معائنہ کرنے کے بعد دنیاوی عارضی زندگی کی بے مائگی سامنے آ جاتی ہے اور اس پوری زندگی کو صرف دس دن تصور کریں گے اور جو زیادہ صائب الرائے ہو گا، جسے آخرت کی ابدی زندگی کا صحیح ادراک ہو گا ، وہ دنیوی زندگی کو اس کے مقابلے میں صرف ایک دن شمار کرے گا۔

آخرت کی زندگی کا بہترین ادراک کرنے والی ہستی، حضرت علی علیہ السلام سے دنیا کے بارے میں روایت ہے:

الدنیا احقر من عضو خنزیرمیتۃِِ بال علیہ الکلب فی ید مجزوم ۔ (روح المعانی ذیل آیہ وَ الرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ (۷۴ مدثر: ۵)

دنیا مردہ سور کے اس عضو سے بدتر ہے جس پر کتے نے پیشاب کیا ہو اور جزامی کے ہاتھ میں ہو۔

اہم نکات

۱۔ آخرت کی ابدی زندگی کا جس قدر بہتر ادراک ہو گا، دنیوی زندگی حقیر تر نظر آئے گی۔


آیات 102 - 104