قَالَ خُذۡہَا وَ لَا تَخَفۡ ٝ سَنُعِیۡدُہَا سِیۡرَتَہَا الۡاُوۡلٰی﴿۲۱﴾

۲۱۔ اللہ نے فرمایا: اسے پکڑ لیں اور ڈریں نہیں، ہم اسے اس کی پہلی حالت پر پلٹا دیں گے۔

21۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سانپ کو دیکھ کر ڈر گئے۔ کیا یہ خوف ایک طبعی امر ہے؟ بعض خوف اور خَشْـيَۃِ میں فرق کے قائل ہیں کہ غیر خدا سے خَشْـيَۃِ انبیاء کے لیے روا نہیں، جبکہ خوف میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بعض دیگر لوگ کہتے ہیں کہ اگر حادثہ مخلوق کی طرف سے ہو جیسے آتش نمرود، تو نہ ڈرنا کمال ہے اور امر اگر خالق کی طرف سے ہو تو ڈرنا کمال ہے۔ بہرحال اس قسم کے خوف کا مطلب شر سے بچنے کی کوشش کا نام ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بادی النظر میں اس سانپ کو شر سمجھے تھے۔

وَ اضۡمُمۡ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخۡرُجۡ بَیۡضَآءَ مِنۡ غَیۡرِ سُوۡٓءٍ اٰیَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں رکھیے تو وہ بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا، یہ دوسری نشانی ہے۔

22۔ ید بیضاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے دوسرا عظیم معجزہ ہے۔ ہاتھ کی سفیدی اور چمک برص کی بیماری کی وجہ سے نہیں تھی جیسا کہ توریت کا کہنا ہے، بلکہ یہ ایک معجزہ تھا جو عصا کے اژدھا بننے کی سطح کا تھا۔ برص عیب ہوتا ہے نہ کہ معجزہ۔

لِنُرِیَکَ مِنۡ اٰیٰتِنَا الۡکُبۡرٰی ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ (یہ اس لیے) کہ ہم تمہیں اپنی بڑی نشانیاں دکھا دیں۔

اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿٪۲۴﴾

۲۴۔ اب آپ فرعون کی طرف جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔

24۔ رسالت کا حکم ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ زمانے کی بڑی طاقت سرکش فرعون کی طرف جانے کا حکم نہایت سنگین حکم ہے،چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معاصر فرعون بڑا جابر اور متکبر تھا۔

قَالَ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ موسیٰ نے کہا: میرے رب! میرا سینہ کشادہ فرما،

وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے،

وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔اور میری زبان کی گرہ کھول دے،

27۔ اس آیت اور دوسری متعدد آیتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بولنے میں دقت پیش آتی تھی۔ اس لیے درخواست ہوئی کہ ہارون کو شریک نبوت کیا جائے۔ ہُوَ اَفۡصَحُ مِنِّیۡ لِسَانًا ۔ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہے۔

یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ ﴿۪۲۸﴾

۲۸۔ تاکہ وہ میری بات سمجھ جائیں۔

وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ اور میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے۔

29۔ ابن مردویہ، خطیب اور ابن عساکر نے حضرت اسماء بنت عمیسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہو بہو یہی دعا کی۔ (الدر المنثور 4: 528) مگر اس طباعت میں اسم علی علیہ السلام کو حذف کیا گیا ہے!!۔

ہٰرُوۡنَ اَخِی ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ میرے بھائی ہارون کو۔