اشۡدُدۡ بِہٖۤ اَزۡرِیۡ ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ اسے میرا پشت پناہ بنا دے،

وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۳۲﴾

۳۲۔ اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے،

کَیۡ نُسَبِّحَکَ کَثِیۡرًا ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ تاکہ ہم تیری خوب تسبیح کریں،

وَّ نَذۡکُرَکَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۳۴﴾

۳۴۔ اور تجھے کثرت سے یاد کریں۔

اِنَّکَ کُنۡتَ بِنَا بَصِیۡرًا﴿۳۵﴾

۳۵۔ یقینا تو ہی ہمارے حال پر خوب نظر رکھنے والا ہے ۔

قَالَ قَدۡ اُوۡتِیۡتَ سُؤۡلَکَ یٰمُوۡسٰی﴿۳۶﴾

۳۶۔ فرمایا: اے موسیٰ! یقینا آپ کو آپ کی مراد دے دی گئی۔

وَ لَقَدۡ مَنَنَّا عَلَیۡکَ مَرَّۃً اُخۡرٰۤی ﴿ۙ۳۷﴾

۳۷۔ اور بتحقیق ہم نے ایک مرتبہ پھر آپ پر احسان کیا۔

اِذۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّکَ مَا یُوۡحٰۤی ﴿ۙ۳۸﴾

۳۸۔ جب ہم نے آپ کی والدہ کی طرف اس بات کا الہام کیا جو بات الہام کے ذریعے کی جانا تھی۔

38۔ وحی سے مراد الہام ہے یعنی مادر موسیٰ علیہ السلام کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ فرعون کو اس بچے کا علم ہونے سے پہلے دریا کے ذریعے فرعون کے محلات تک پہنچایا جائے۔ مسیحی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد عمران کا گھر لب دریا تھا۔ والدہ موسیٰ علیہ السلام نے سوچا کہ فرعون کے محلات کی خواتین جس وقت دریا کی سیر کے لیے آتی ہیں اس وقت دریا کے حوالے کیا جائے تاکہ خواتین کو اس خوبصورت بچے پر ترس آئے۔

اَنِ اقۡذِفِیۡہِ فِی التَّابُوۡتِ فَاقۡذِفِیۡہِ فِی الۡیَمِّ فَلۡیُلۡقِہِ الۡیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاۡخُذۡہُ عَدُوٌّ لِّیۡ وَ عَدُوٌّ لَّہٗ ؕ وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ ۬ۚ وَ لِتُصۡنَعَ عَلٰی عَیۡنِیۡ ﴿ۘ۳۹﴾

۳۹۔ (وہ یہ) کہ اس (بچے) کو صندوق میں رکھ دیں پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دیں تو دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا (تو) میرا اور اس کا دشمن اسے اٹھا لے گا اور میں نے آپ پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی تاکہ آپ میرے سامنے پرورش پائیں۔

اِذۡ تَمۡشِیۡۤ اُخۡتُکَ فَتَقُوۡلُ ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی مَنۡ یَّکۡفُلُہٗ ؕ فَرَجَعۡنٰکَ اِلٰۤی اُمِّکَ کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا وَ لَا تَحۡزَنَ ۬ؕ وَ قَتَلۡتَ نَفۡسًا فَنَجَّیۡنٰکَ مِنَ الۡغَمِّ وَ فَتَنّٰکَ فُتُوۡنًا ۬۟ فَلَبِثۡتَ سِنِیۡنَ فِیۡۤ اَہۡلِ مَدۡیَنَ ۬ۙ ثُمَّ جِئۡتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوۡسٰی﴿۴۰﴾

۴۰۔ (وہ وقت یاد کرو) جب آپ کی بہن (فرعون کے پاس) گئیں اور کہنے لگیں: کیا میں تمہیں ایسا شخص بتا دوں جو اس بچے کی پرورش کرے؟ اس طرح ہم نے آپ کو آپ کی ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور آپ نے ایک شخص کو قتل کیا پس ہم نے آپ کو غم سے نجات دی اور ہم نے آپ کی خوب آزمائش کی، پھر سالوں تک آپ مدین والوں کے ہاں مقیم رہے پھر اے موسیٰ! اب عین مقرر وقت پر آگئے ہیں۔

40۔ جب بچے کو دریائے نیل کے حوالے کر دیا گیا تو مادر موسیٰ نے اپنی ایک بیٹی کو تجسس کے لیے بھیجا۔ موسیٰ علیہ السلام کی بہن قصر فرعون کے گرد چکر لگاتی رہی۔ فرعون کا آدمی بچے کو دودھ پلانے والی دائی کی تلاش میں نکلا تو ہارون کی بہن نے کہا: کیا میں ایک خاندان کی نشاندہی کروں جو اس بچے کو دودھ پلائے؟ اس طرح بچہ ماں کی گود میں واپس آ گیا۔

فَرَجَعۡنٰکَ اِلٰۤی اُمِّکَ : ماں کی ممتا دوبارہ دلانا ایک عظیم احسان ہے۔

کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا : ماں کو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک واپس دلانا بھی ایک عظیم احسان ہے۔

وَ قَتَلۡتَ نَفۡسًا : قبطی کے قتل کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی حکومت سے خوف لاحق تھا، اللہ نے اس سے نجات دلائی۔ پھر مدین میں چند سال گزارنے کے بعد آج اس مقام پر ہو۔

ثُمَّ جِئۡتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوۡسٰی : جس دن کا قدرت نے تیری رسالت کے لیے تعین کیا تھا، اسی مقررہ وقت پر تم یہاں آ گئے ہو اے موسیٰ!