فَلَمَّاۤ اَتٰىہَا نُوۡدِیَ یٰمُوۡسٰی ﴿ؕ۱۱﴾

۱۱۔ پھر جب وہ آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی: اے موسیٰ!

11۔ نُوۡدِیَ یٰمُوۡسٰی : اس ندا کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہچان لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ کیونکہ اس آواز کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عام ظاہری حواس سے نہیں سنا کہ شک کی گنجائش باقی رہ جائے بلکہ اپنے باطنی حواس سے سنا جس میں شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی.

اِنِّیۡۤ اَنَا رَبُّکَ فَاخۡلَعۡ نَعۡلَیۡکَ ۚ اِنَّکَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ میں ہی آپ کا رب ہوں، پس اپنی جوتیاں اتار دیں،بتحقیق آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں۔

12۔ جوتے اتارنے کا حکم اس بقعہ مبارکہ کے تقدس کی وجہ سے ہے جس کو اللہ نے حضرت موسیٰ سے ہمکلام ہونے کے لیے منتخب کیا۔ یہیں سے جوتے اتارنا یہودیوں کی تہذیب و آداب کا حصہ بن گیا۔

وَ اَنَا اخۡتَرۡتُکَ فَاسۡتَمِعۡ لِمَا یُوۡحٰی﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور میں نے آپ کو منتخب کر لیا ہے لہٰذا جو وحی کی جا رہی ہے اسے سنیں۔

اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِیۡ ۙ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ﴿۱۴﴾

۱۴۔ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس صرف میری بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں۔

14۔ ابتدائے وحی میں اللہ نے تاکیدی لفظوں میں فرمایا: میں ہی اللہ ہوں۔ تاکہ موسیٰ علیہ السلام وحی وصول کرنے کے لیے یقین کے مرحلے میں آ جائیں۔

جبکہ رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی تو اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللّٰہُ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور اِقْرَاْ کا حکم براہ راست وصول فرمایا۔ آخری جملے میں فرمایا نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ اللہ کی یاد سے غافل نہ رہنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔

اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخۡفِیۡہَا لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا تَسۡعٰی﴿۱۵﴾

۱۵۔ قیامت یقینا آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھوں گا تاکہ ہر فرد کو اس کی سعی کے مطابق جزا ملے۔

فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنۡہَا مَنۡ لَّا یُؤۡمِنُ بِہَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرۡدٰی﴿۱۶﴾

۱۶۔ پس جو شخص قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے کہیں وہ آپ کو اس راہ سے نہ روک دے، ایسا ہوا تو آپ ہلاک ہو جائیں گے۔

وَ مَا تِلۡکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور اے موسیٰ! یہ آپ کے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟

قَالَ ہِیَ عَصَایَ ۚ اَتَوَکَّوٴُا عَلَیۡہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ وَ لِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخۡرٰی ﴿۱۸﴾

۱۸۔ موسیٰ نے کہا : یہ میرا عصا ہے، اس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور میرے لیے اس میں کئی اور مفادات بھی ہیں۔

قَالَ اَلۡقِہَا یٰمُوۡسٰی﴿۱۹﴾

۱۹۔ فرمایا: اے موسیٰ ! اسے پھینکیں۔

فَاَلۡقٰہَا فَاِذَا ہِیَ حَیَّۃٌ تَسۡعٰی ﴿۲۰﴾

۲۰۔ پس موسیٰ نے اسے پھینکا تو وہ یکایک سانپ بن کر دوڑنے لگا۔

20۔ ہم نے پہلے بھی لکھا ہے کہ معجزات عام طبیعیاتی قوانین کی دفعات کے تحت رونما نہیں ہوتے، نہ ہی بغیر علل و اسباب کے وقوع پذیر ہوتے ہیں، بلکہ معجزات کے اپنے علل و اسباب ہوتے ہیں۔ مگر یہ دوسروں کے لیے قابل تسخیر نہیں ہوتے۔