آیات 30 - 32
 

ہٰرُوۡنَ اَخِی ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ میرے بھائی ہارون کو۔

اشۡدُدۡ بِہٖۤ اَزۡرِیۡ ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ اسے میرا پشت پناہ بنا دے،

وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۳۲﴾

۳۲۔ اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے،

تفسیر آیات

خاندان کے اس فرد کی نشاندہی بھی کی گئی۔ بھائی ہارون کے ذریعے قوت میں مضبوطی پیدا فرما۔ بھائی ہوتے ہی پشت پناہ ہیں۔

وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ: امر رسالت میں اسے میرا شریک بنا دے۔ امر رسالت سے مراد وحی وصول کرنے میں شریک منظور نہیں ہو گا چونکہ اللہ سے وحی وصول کرنے میں موسیٰ علیہ السلام کے لیے کوئی دقت نہیں تھی بلکہ تبلیغ رسالت میں شرکت کی درخواست ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ہارون علیہ السلام کو تبلیغ رسالت میں شریک کرنے کی درخواست تھی:

وَ اَخِیۡ ہٰرُوۡنُ ہُوَ اَفۡصَحُ مِنِّیۡ لِسَانًا فَاَرۡسِلۡہُ مَعِیَ رِدۡاً یُّصَدِّقُنِیۡۤ ۫ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّکَذِّبُوۡنِ (۲۸ قصص: ۳۴)

اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے لہٰذا اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ میری تکذیب کریں گے۔

شیعہ سنی مصادر میں آیا ہے کہ عیناً یہی دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمائی:

اللّٰھم انی اقول کما قال اخی موسیٰ۔ اللّٰھم اجعل لی وزیراً من اھلی علیا اخی اشددبہ ازری واشرکہ فی امری کی نسبحک کثیراً ونذکرک کثیراً انک کنت بنا بصیراً ۔

اے اللہ میں بھی وہی دعا کرتا ہوں جو میرے بھائی موسیٰ نے کی ہے۔ اے اللہ میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے میرے بھائی علی کو اسے میرا پشت پناہ بنا دے اور اسے میرے امر میں شریک بنا دے کہ ہم تیری خوب تسبیح کریں اور تجھے کثرت سے یاد کریں۔ یقیناً تو ہمارے حال پر نظر رکھتا ہے۔

اس روایت کے راوی درج ذیل ہیں:

۱۔ عبد اللہ بن عباس: شواہد التنزیل ۱: ۵۶ میں حسکانی نے، ابو نعیم نے مانزل القرآن فی علی اور منقبۃ المطہرین میں، نطنزی نے الخصائص العلویہ میں ابن عباس کی روایت نقل کی ہے۔ ملاحظہ ہو المناقب شہر آشوب ۳: ۵۷۔

۲۔ ابوذر۔ تفسیر ثعلبی ملاحظہ ہو: الصراط المستقیم ۱:۲۶۰

۳۔ سلمان فارسی: کتاب سلیم بن قیس صفحہ ۹۰۹

۴۔ حذیفہ بن اسید: شواہد التنزیل ۱:۴۷۸

۵۔ اسماء بنت عمیس: شواہد التنزیل ۱:۴۷۹۔ الدرالمنثور ۔

واضح رہے حضرت علی علیہ السلام کے بارے وَ اَشۡرِکۡہُ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ سے مراد نبوت میں شرکت کی درخواست نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث منزلت میں حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

اَنْتَ مِنِّی بَمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مّوسیٰ اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی ۔ ( الکافی ۸: ۱۰۶)

تجھے مجھ سے وہی مقام حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھا صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

اس میں صراحتاً نبوت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے بلکہ اَمۡرِیۡ سے مراد امر تبلیغ رسالت ہے۔ سورہ برائت کے شروع میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ تبلیغ کے دو مرحلے ہیں: پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ حکم لوگوں کے لیے بیان کرنا۔ دوسرا مرحلہ رسول کی طرف سے بیان ہونے کے بعد سب سننے والوں پر واجب ہے کہ وہ دوسروں تک پہنچا دیں۔ فلیبلغ الشاہد الغائب ۔ جب تبلیغ پہلے مرحلے میں ہوتی ہے تو یہ رسول اللہ کا فرض منصبی ہوتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کو اس مرحلے میں شریک کرنے کی دعا کی ہے۔ چنانچہ برائت از مشرکین کی تبلیغ پہلے مرحلے میں تھی خود رسول اللہ ؐ کی جگہ حضرت علی علیہ السلام نے برائت از مشرکین کی تبلیغ کی۔

اہم نکات

۱۔ کسی مشن کی کامیابی کے لیے خاندانی مزاج و الفت طبعی مددگار ثابت ہوتی ہے: وَزِیۡرًا مِّنۡ اَہۡلِیۡ ۔۔۔


آیات 30 - 32