وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا ﴿ۚ۷۱﴾

۷۱۔ اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہو گا جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ حتمی فیصلہ آپ کے رب کے ذمے ہے۔

71۔ بعض روایات کے مطابق اس سے مراد حضور اور مشاہدہ ہے جیسا کہ آیت 68 میں مذکور ہے اور بعض دوسری روایات کے مطابق داخل ہونا مراد ہے۔ لیکن مؤمنین کے لیے اس آتش میں ٹھنڈک اور سلامتی ہو گی جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آتش نمرود تھی نیز یہ بات بھی بعید نہیں کہ اس سے مراد صراط ہو جو آتش جہنم پر سے گزرتی ہے اور یہ بھی روایت میں ہے کہ مؤمن کو جنت میں جانے سے پہلے ایک بار جہنم دکھا دی جائے گی اور کافر کو جہنم جانے سے پہلے ایک بار جنت دکھا دی جائے گی تاکہ مؤمن جنت کی نعمتوں کی قدر کرے اور کافر کے عذاب میں اضافہ ہو۔

ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡہَا جِثِیًّا﴿۷۲﴾

۷۲۔ پھر اہل تقویٰ کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا چھوڑ دیں گے۔

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا ۙ اَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ خَیۡرٌ مَّقَامًا وَّ اَحۡسَنُ نَدِیًّا﴿۷۳﴾

۷۳۔ اور جب انہیں ہماری صریح آیات سنائی جاتی ہیں تو کفار اہل ایمان سے کہتے ہیں: دونوں فریقوں میں سے کون بہتر مقام پر (فائز) ہے اور کس کی محفلیں زیادہ بارونق ہیں؟

73۔ چشم ظاہر بین اور سطحی ذہن رکھنے والے مال و دولت اور جاہ و سلطنت کو حقائق کے لیے بنیاد بناتے ہیں۔ جب یہ دولت اور اقتدار والے تاریخ کا حصہ بنتے ہیں تو تاریخ کے نزدیک مادی قدروں کو اہمیت نہیں ملتی۔ آج تاریخ انسانیت پر ہارون علیہ السلام کی سلطنت ہے، قارون کی نہیں اور آج بلال حبشی کا صفحہ تاریخ تابناک ہے، ابوجہل کا نہیں۔

وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ ہُمۡ اَحۡسَنُ اَثَاثًا وَّ رِءۡیًا﴿۷۴﴾

۷۴۔ اور ہم ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو سامان زندگی اور نمود میں اس سے کہیں بہتر تھیں۔

74۔ جو چند روزہ اللہ نے تمہیں ڈھیل دی ہے اسے اپنے حق میں اللہ کی طرف سے رعایت سمجھتے ہو، ان چند دنوں کے بعد تمہاری ہلاکت کا وقت آئے گا تو تم تاریخ کا حصہ بن جاؤ گے اور تمہارے نام سے نفرت و مذلت کا تعفن پھیلے گا جب کہ عمار و بلال تابناک تاریخ کی جبین پر فخر و مباہات کی علامت بن جائیں گے۔

قُلۡ مَنۡ کَانَ فِی الضَّلٰلَۃِ فَلۡیَمۡدُدۡ لَہُ الرَّحۡمٰنُ مَدًّا ۬ۚ حَتّٰۤی اِذَا رَاَوۡا مَا یُوۡعَدُوۡنَ اِمَّا الۡعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَۃَ ؕ فَسَیَعۡلَمُوۡنَ مَنۡ ہُوَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّ اَضۡعَفُ جُنۡدًا﴿۷۵﴾

۷۵۔ کہدیجئے: جو شخص گمراہی میں ہے اسے خدائے رحمن لمبی مہلت دیتا ہے لیکن جب وہ اس کا مشاہدہ کریں گے جس کا وعدہ ہوا تھا، خواہ وہ عذاب ہو یا قیامت تو اس وقت انہیں معلوم ہو گا کہ کس کا مقام زیادہ برا ہے اور کس کا لاؤ لشکر زیادہ کمزور ہے۔

75۔ وہ جس ڈھیل کو اپنے حق میں اللہ کا اکرام سمجھتے ہیں، درحقیقت سرکشوں کے خلاف سب سے بڑی سزا یہی ڈھیل ہے۔ چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت 178 میں فرمایا: وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ خَیۡرٌ لِّاَنۡفُسِہِمۡ ؕ اِنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِثۡمًا ۚ جب وعدہ الہی کا وقت آئے گا تو معلوم ہو گا کس کا مقام برا ہے۔

وعدہ الہی کے دو مرحلوں کا ذکر آیا ہے: اِمَّا الۡعَذَابَ وَ اِمَّا السَّاعَۃَ ؕ پہلا مرحلہ عذاب کا ہے۔ یعنی قیامت سے پہلے جب ان پر عذاب الٰہی ہو گا۔ گویا کہ وہ اس دنیا میں بھی ذلت و خواری سے دو چار ہوں گے اور مسلمانوں سے شکست کھا رہے ہوں گے، اس وقت انہیں معلوم ہو گا کہ کس کا مقام برا ہے۔ چشم جہاں نے ان کی ذلت و خواری کا مشاہدہ میدان بدر سے کرنا شروع کیا۔ دوسرا مرحلہ قیامت کا ہے، جب قیامت کے دن ابدی ذلت و رسوائی کے ساتھ عذاب جہنم کا مشاہدہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ کس کا مقام برا ہے۔

وَ یَزِیۡدُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا ہُدًی ؕ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ مَّرَدًّا﴿۷۶﴾

۷۶۔ اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ ان کی ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے اور آپ کے رب کے نزدیک باقی رہنے والی نیکیاں ثواب کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انجام کے لحاظ سے بھی بہتر ہیں۔

76۔روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے باقیات الصالحات کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ھی الصلوۃ فحافظوا علیھا ۔ یہ نماز ہے، اس کی حفاظت کرو۔ (مستدرک الوسائل 3: 19) دوسری روایت میں آیا ہے کہ باقیات الصالحات مومن کا یہ کہنا ہے: سبحان اللّٰہ و الحمد للّٰہ و لا الہ الا اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔(حوالہ سابق 5:327) واضح رہے کہ یہ احادیث باقیات الصالحات کے اہم مصادیق کی نشاندہی کرتی ہیں۔

اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوۡتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًا ﴿ؕ۷۷﴾

۷۷۔ مجھے بتلاؤ جو ہماری آیات کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے: مجھے مال اور اولاد کی عطا ضرور بالضرور جاری رہے گی؟

اَطَّلَعَ الۡغَیۡبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۙ۷۸﴾

۷۸۔ کیا اس نے غیب کی اطلاع حاصل کی ہے یا خدائے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے ؟

کَلَّا ؕ سَنَکۡتُبُ مَا یَقُوۡلُ وَ نَمُدُّ لَہٗ مِنَ الۡعَذَابِ مَدًّا ﴿ۙ۷۹﴾

۷۹۔ ہرگز نہیں، جو کچھ یہ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے اور ہم اس کے عذاب میں مزید اضافہ کر دیں گے۔

79۔ سَنَکۡتُبُ مَا یَقُوۡلُ : اللہ کی طرف سے ضبط تحریر میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کا جرم علم خدا میں ثبت ہو جاتا ہے اور جو علم خدا میں ثبت ہو جائے اس میں بھول چوک ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ کسی مطلب کو ضبط تحریر میں لانے سے بھول چوک اور اشتباہ کا امکان کم ہو جاتا ہے۔

وَّ نَرِثُہٗ مَا یَقُوۡلُ وَ یَاۡتِیۡنَا فَرۡدًا﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور جو کچھ وہ کہتا ہے اس کے ہم مالک بن جائیں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا حاضر ہو گا۔

80۔ نَرِثُہٗ : یعنی کافروں کا یہ تمسخر اور ان کے کفر کی باتیں ان کے مرنے کے بعد ان کے لیے وبال جان بن کر باقی رہیں گی اور ہمارے پاس وہ اکیلا پہنچ جائے گا۔جن کو اس نے خدا کے ساتھ شریک مانا تھا، ان میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہ ہو گا۔