آیات 77 - 80
 

اَفَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوۡتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًا ﴿ؕ۷۷﴾

۷۷۔ مجھے بتلاؤ جو ہماری آیات کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے: مجھے مال اور اولاد کی عطا ضرور بالضرور جاری رہے گی؟

اَطَّلَعَ الۡغَیۡبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۙ۷۸﴾

۷۸۔ کیا اس نے غیب کی اطلاع حاصل کی ہے یا خدائے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے ؟

کَلَّا ؕ سَنَکۡتُبُ مَا یَقُوۡلُ وَ نَمُدُّ لَہٗ مِنَ الۡعَذَابِ مَدًّا ﴿ۙ۷۹﴾

۷۹۔ ہرگز نہیں، جو کچھ یہ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے اور ہم اس کے عذاب میں مزید اضافہ کر دیں گے۔

وَّ نَرِثُہٗ مَا یَقُوۡلُ وَ یَاۡتِیۡنَا فَرۡدًا﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور جو کچھ وہ کہتا ہے اس کے ہم مالک بن جائیں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا حاضر ہو گا۔

شان نزول

شان نزول میں آیا ہے

خباب بن ارت کہتے ہیں میں مالدار تھا اور عاص بن وائل کے ذمے میرا قرض تھا۔ اس سے مطالبہ کیا تو اس نے کہا: جب تک تو محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفر نہ کرے تیرا قرض ادا نہیں کروں گا۔ میں نے کہا: میں تیرے مرنے اور مبعوث ہونے تک کفر نہیں کروں گا تو اس نے کہا: اچھا! میں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جاؤں گا تو جب میں اپنے مال و اولاد کے پاس واپس جاؤں گا تو تمہارا قرض ادا کر دوں گا۔ ( مجمع البیان ذیل آیہ۔ صحیح بخاری و مسلم کچھ فرق کے ساتھ۔)

یہ روایت آیت کے مفہوم کے ساتھ کاملاً موافق نہیں ہے۔ کیونکہ عاص بن وائل کا یہ کہنا کہ میں قیامت کے دن تیرا قرض ادا کروں گا ایک تمسخر ہے، سنجیدہ بات نہیں ہے۔ آیت کا لہجہ کسی سنجیدہ موقف کی رد کے بارے میں ہے کہ اسے مال و اولاد ملنے کا یقین ہے جس کا اظہار وہ تاکیدی لفظوں میں کرتا ہے: لَاُوۡتَیَنَّ ۔

تفسیر آیات

سَنَکۡتُبُ مَا یَقُوۡلُ: اس کی بات کو ہم ضبط تحریر میں لائیں گے۔ اللہ کی طرف سے ضبط تحریر میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کا جرم علم خدا میں ثبت ہو جاتا ہے اور جو علم خدا میں ثبت ہوتا ہے اس میں بھول چوک وغیرہ ممکن نہیں ہے جیسا کہ کسی مطلب کو ضبط تحریر میں لانے کی صورت میں بھول چوک اور اشتباہ کا امکان کم ہو جاتا ہے۔

وَّ نَرِثُہٗ مَا یَقُوۡلُ: کافر کا یہ تمسخر اور اس کی باتیں اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے وبال جان بن کر باقی رہ جاتی ہیں اور ہمارے پاس وہ اکیلا پہنچ جائے گا۔ اس کے ساتھ نہ مال و اولاد ہوں گے، نہ وہ چیزیں، جنہیں اس نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا تھا۔

اہم نکات

۱۔ گناہ کی لذت ختم ہو جاتی ہے، اس کا وبال باقی رہتا ہے۔

۲۔ ثروت مندوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ انہوں نے اکیلے اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے۔


آیات 77 - 80