جَنّٰتِ عَدۡنِۣ الَّتِیۡ وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ عِبَادَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ وَعۡدُہٗ مَاۡتِیًّا﴿۶۱﴾

۶۱۔ ایسی جاودانی بہشت (میں) جس کا اللہ نے اپنے بندوں سے غیبی وعدہ فرمایا ہے، یقینا اس کا وعدہ آنے والا ہے۔

61۔ عَدۡنِ دائمی قیام گاہ کو کہتے ہیں۔ وہ ایسی جنت میں داخل ہوں گے جس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔

لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا اِلَّا سَلٰمًا ؕ وَ لَہُمۡ رِزۡقُہُمۡ فِیۡہَا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا﴿۶۲﴾

۶۲۔ وہاں وہ بیہودہ باتیں نہیں سنیں گے سوائے سلام کے اور وہاں انہیں صبح و شام رزق ملا کرے گا۔

62۔ جنت میں لغویات کا وجود نہ ہو گا۔ یہاں امن و سکون، کیف و سرور اور رضائے رب کے سائے میں ہر خواہش پوری ہو گی تو فضا سلام ہی سلام کی ہو گی۔

صبح و شام رزق میسر آنے کا مطلب یا تو یہ ہو سکتا ہے کہ رزق انہیں بغیر کسی تعطل کے ہمیشہ ملتا رہے گا یا اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جنت کی زندگی میں سورج چاند نہ بھی ہوں، تاہم صبح و شام کے اوقات ہوں گے۔

تِلۡکَ الۡجَنَّۃُ الَّتِیۡ نُوۡرِثُ مِنۡ عِبَادِنَا مَنۡ کَانَ تَقِیًّا﴿۶۳﴾

۶۳۔ یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے متقین کو بنائیں گے۔

وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمۡرِ رَبِّکَ ۚ لَہٗ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡنَا وَ مَا خَلۡفَنَا وَ مَا بَیۡنَ ذٰلِکَ ۚ وَ مَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا ﴿ۚ۶۴﴾

۶۴۔ اور ہم (فرشتے)آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے، جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔

64۔ روایت ہے کہ وحی کے آنے میں تاخیر پر حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے سوال کیا تو جبرئیل کا یہ جواب تھا: ہم اللہ کے حکم سے ہی نازل ہو سکتے ہیں۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فَاعۡبُدۡہُ وَ اصۡطَبِرۡ لِعِبَادَتِہٖ ؕ ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا﴿٪۶۵﴾

۶۵۔ وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو، کیا اس کا کوئی ہمنام تمہارے علم میں ہے؟

65۔ وہی آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ اس کا کوئی ہمنام نہیں ہے۔ یعنی اللہ کے علاوہ کسی کے لیے بھی یہ نام شایان نہیں ہے کہ آسمانوں اور زمین کا ایک ہی رب ہے۔

وَ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوۡفَ اُخۡرَجُ حَیًّا﴿۶۶﴾

۶۶۔ اور انسان کہتا ہے: جب میں مر جاؤں گا تو کیا میں زندہ کر کے نکالا جاؤں گا؟

66۔سطحی اذہان میں سوال آتا ہے کہ انسان کے خاک ہونے اور بکھرنے کے بعد اور کبھی دیگر حیوانات کی غذا بننے کے بعد کس طرح دوبارہ وہی جسم اور وہی انسان زندہ ہو سکتا ہے؟ جواب یہ ہے: دنیوی زندگی میں بھی انسانی جسم ہمیشہ تحلیل ہوتا رہتا ہے۔ اربوں Cell روزانہ جل کرخا کستر ہو جاتے ہیں اور کاربن کی شکل میں ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے Cell بنتے ہیں۔ اس طرح چھ سالوں میں انسان کا پورا مادی جسم بدل جاتا ہے، جبکہ انسان نہیں بدلتا۔

اَوَ لَا یَذۡکُرُ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ وَ لَمۡ یَکُ شَیۡئًا﴿۶۷﴾

۶۷۔ کیا اس انسان کو یاد نہیں کہ ہم نے اسے پہلے اس وقت پیدا کیا، جب وہ کچھ بھی نہ تھا؟

فَوَ رَبِّکَ لَنَحۡشُرَنَّہُمۡ وَ الشَّیٰطِیۡنَ ثُمَّ لَنُحۡضِرَنَّہُمۡ حَوۡلَ جَہَنَّمَ جِثِیًّا ﴿ۚ۶۸﴾

۶۸۔ آپ کے رب کی قسم! پھر ہم ان سب کو اور شیاطین کو ضرور جمع کریں گے پھر ہم انہیں جہنم کے گرد گھٹنوں کے بل ضرور حاضر کریں گے۔

ثُمَّ لَنَنۡزِعَنَّ مِنۡ کُلِّ شِیۡعَۃٍ اَیُّہُمۡ اَشَدُّ عَلَی الرَّحۡمٰنِ عِتِیًّا ﴿ۚ۶۹﴾

۶۹۔ پھر ہم ہر فرقے میں سے ہر اس شخص کو جدا کر دیں گے جو رحمن کے مقابلے میں زیادہ سرکش تھا۔

69۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ میدان قیامت میں لوگ گروہ گروہ ہوں گے۔ کیونکہ ہر شخص اپنے آقا کے ساتھ محشور ہو گا۔ ہر جماعت میں مختلف لوگ ہو سکتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ سرکش ہوں گے اور کچھ لوگ سرکش نہیں ہوں گے۔

ثُمَّ لَنَحۡنُ اَعۡلَمُ بِالَّذِیۡنَ ہُمۡ اَوۡلٰی بِہَا صِلِیًّا﴿۷۰﴾

۷۰۔ پھر (یہ بات) ہم بہتر جانتے ہیں کہ جہنم میں جھلسنے کا زیادہ سزاوار ان میں سے کون ہے۔