بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورﮤ نحل

اس سورہ میں نحل (شہد کی مکھی) کا ذکر آیا ہے اسی مناسبت سے اسے سورہ نحل کہتے ہیں۔

بعض آیات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سورہ اس وقت نازل ہوا جب کفار مکہ کی طرف سے ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ دیگر سورہ ہائے مکّی کی طرح یہ سورہ بھی الہٰیات، وحی معاد، جیسے موضوعات پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ معاملات کے بارے میں بھی احکام ملتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا اس سورہ میں کثرت سے ذکر ملتا ہے، یہاں تک کہ اسے سورۃ النعم (نعمات کا سورہ) بھی کہا جاتا ہے۔

اَتٰۤی اَمۡرُ اللّٰہِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡہُ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۱﴾

۱۔ اللہ کا امر آگیا پس تم اس میں عجلت نہ کرو وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوۡنِ﴿۲﴾

۲۔ وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو روح کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے (اس حکم کے ساتھ) کہ انہیں تنبیہ کرو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا تم میری مخالفت سے بچو۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور جو شرک یہ لوگ کرتے ہیں اللہ اس سے بالاتر ہے۔

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ﴿۴﴾

۴۔ اس نے انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا پھر وہ یکایک کھلا جھگڑالو بن گیا۔

4۔ باوجودیکہ انسان کو ایک نطفے جیسی حقیر بوند سے پیدا کیا ہے، اس کی سرکشی اور گستاخی کا یہ حال ہے کہ وہ اللہ سے جھگڑنے لگتا ہے، کہاں نطفہ اور کہاں اللہ کا مقابلہ۔ حضرت علی علیہ السلام اس انسان کے بارے میں فرماتے ہیں: اَوَّلُہُ نُطْفَۃٌ وَ آخِرُہُ جِیفَۃٌ (وسائل الشیعۃ 1:334) یہ انسان آغاز میں ایک نطفہ اور انجام میں ایک بدبودار لاش ہے۔

وَ الۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَا ۚ لَکُمۡ فِیۡہَا دِفۡءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۪۵﴾

۵۔ اور اس نے مویشیوں کو پیدا کیا جن میں تمہارے لیے گرم پوشاک اور فوائد ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔

وَ لَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ وَ حِیۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ ﴿۪۶﴾

۶۔ اور ان میں تمہارے لیے رونق بھی ہے اور جب تم انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور صبح کو چرنے کے لیے بھیجتے ہو۔

6۔ چوپائے انسان کے لیے مسخر ہیں، یعنی ان کی غرض تخلیق انسان ہے۔ دیہی زندگی ہو یا تمدن یافتہ، کوئی بھی ان چوپاؤں سے بے نیاز نہیں ہے۔

وَ تَحۡمِلُ اَثۡقَالَکُمۡ اِلٰی بَلَدٍ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا بٰلِغِیۡہِ اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِ ؕ اِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ۙ﴿۷﴾

۷۔اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر ایسے علاقوں تک لے جاتے ہیں جہاں تم جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے، تمہارا رب یقینا بڑا شفیق، مہربان ہے۔

وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اور (اس نے) گھوڑے خچر اور گدھے بھی (اس لیے پیدا کیے) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور تمہارے لیے زینت بنیں، ابھی اور بھی بہت سی چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔

8۔ سواری میں کام آنے والے حیوانات کے دو مقاصد بیان فرمائے: ایک یہ کہ سواری کے کام آئے اور دوسرا یہ کہ زینت کا کام دے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کو اللہ تعالیٰ نے اہمیت دی ہے وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ اور ابھی بہت سی چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں۔ موجودہ دور کی ایجادات عصر نزول قرآن کے لوگوں کے لیے مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ تھیں اور آئندہ ہونے والی ایجادات ہمارے لیے مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ہیں۔اس طرح ہر نسل کے لیے آیت کا خطاب مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ زندہ رہے گا۔

وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ وَ مِنۡہَا جَآئِرٌ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿٪۹﴾

۹۔اور سیدھا راستہ (دکھانا) اللہ کے ذمے ہے اور بعض راستے ٹیڑھے بھی ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کرتا ۔

9۔ مادی نعمتوں کے ذکر کے بعد روحانی نعمت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پر لازم قرار دیا ہے کہ سیدھا راستہ دکھایا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فطرت اور شریعت دونوں کے ذریعے انسان کی ہدایت کا سامان فراہم فرمایا۔ فطرت کے ذریعے خود انسان کے وجود، اس کی ساخت و بافت میں ہدایت ودیعت فرمائی: رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰى ۔ (طٰہٰ:50) ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت دے دی، پھر ہدایت فرمائی۔ اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ۔ (دہر: 3) ہم نے اسے راستہ بتایا پھر یا تو وہ شکر گزار ہو یا کافر۔ چنانچہ امتحان اور استحقاق کے لیے ضروری تھا کہ انسان خود مختار ہو۔ اگر جبری ہدایت منشائے خداوندی میں ہوتی تو سب کی ہدایت ہو جاتی۔ مگر اس جبری ہدایت کی قیمت کچھ نہ ہوتی۔ جیسے بے حس پتھر، جسے آپ جہاں چاہیں رکھ دیں یا ایک گدھا جسے جہاں چاہیں باندھیں۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّکُمۡ مِّنۡہُ شَرَابٌ وَّ مِنۡہُ شَجَرٌ فِیۡہِ تُسِیۡمُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہیں پینے کو ملتا ہے اور اس سے درخت اگتے ہیں جن میں تم جانور چراتے ہو۔