آیات 10 - 11
 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّکُمۡ مِّنۡہُ شَرَابٌ وَّ مِنۡہُ شَجَرٌ فِیۡہِ تُسِیۡمُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہیں پینے کو ملتا ہے اور اس سے درخت اگتے ہیں جن میں تم جانور چراتے ہو۔

یُنۡۢبِتُ لَکُمۡ بِہِ الزَّرۡعَ وَ الزَّیۡتُوۡنَ وَ النَّخِیۡلَ وَ الۡاَعۡنَابَ وَ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جس سے وہ تمہارے لیے کھیتیاں، زیتون کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقینا نشانی ہے۔

تشریح کلمات

تُسِیۡمُوۡنَ:

( س و م ) السوم کے معنی کسی چیز کی طلب میں جانے کے ہیں۔ پس اس کا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے۔ طلب اور جانا۔ سَامَتِ الْاِبِل ۔ اونٹ چراگاہ میں چرنے کے لیے چلے گئے۔

تفسیر آیات

۱۔ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ: مذکورہ پھلوں کی فراہمی اہل فکر کو بتاتی ہے کہ یہ اندھے اتفاق اور ناداں ، بے شعور طبیعت کا کام نہیں ہے بلکہ ان چیزوں کی فراہمی کے پیچھے ایک شعور، ارادہ کارفرما ہے۔ ورنہ آسمان سے برسنے والاپانی، انسان اور روئے زمین پر موجود باقی چیزوں کے لیے مفید و مناسب نہ ہوتا۔ زمین سے اُگنے والی چیزوں کا انسان اور باقی جانوروں کے مزاج اور طبیعت کے عین مطابق اور مفید ہونا بھی ضروری نہ تھا۔ لہٰذا ان مختلف چیزوں کا ایک دوسرے کے لیے ضروری ہونا اور باہم موافق طبع ہونا بتاتا ہے کہ ان چیزوں کی تخلیق کے پیچھے ایک حکیمانہ ذہن کارفرما ہے جو اس نظام کی تدبیر کر رہا ہے۔

۲۔ یُنۡۢبِتُ لَکُمۡ بِہِ الزَّرۡعَ: کھیتی کی افادیت اور زیتون، کھجور اور انگور کے انسانی جسم کی ساخت و بافت کے ساتھ نہایت سازگار ہونے کی وجہ سے ممکن ہے ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہو۔

۳۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً: ان چیزوں میں صاحبان فکر کے لیے دلیل موجود ہے کہ انسان کی تدبیر اللہ کے ہاتھ میں۔ مشرکین کے نزدیک بھی خالق اللہ ہے۔ اللہ نے انسان کی تدبیر حیات کے لیے درج بالا چیزیں خلق فرمائیں تو تدبیر، خلق سے جدا چیز نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ آیات الٰہی سے استفادہ کرنے کے لیے غور و فکر شرط ہے۔


آیات 10 - 11