وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ وَ مِنۡہَا جَآئِرٌ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿٪۹﴾

۹۔اور سیدھا راستہ (دکھانا) اللہ کے ذمے ہے اور بعض راستے ٹیڑھے بھی ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کرتا ۔

9۔ مادی نعمتوں کے ذکر کے بعد روحانی نعمت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پر لازم قرار دیا ہے کہ سیدھا راستہ دکھایا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فطرت اور شریعت دونوں کے ذریعے انسان کی ہدایت کا سامان فراہم فرمایا۔ فطرت کے ذریعے خود انسان کے وجود، اس کی ساخت و بافت میں ہدایت ودیعت فرمائی: رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰى ۔ (طٰہٰ:50) ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت دے دی، پھر ہدایت فرمائی۔ اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ۔ (دہر: 3) ہم نے اسے راستہ بتایا پھر یا تو وہ شکر گزار ہو یا کافر۔ چنانچہ امتحان اور استحقاق کے لیے ضروری تھا کہ انسان خود مختار ہو۔ اگر جبری ہدایت منشائے خداوندی میں ہوتی تو سب کی ہدایت ہو جاتی۔ مگر اس جبری ہدایت کی قیمت کچھ نہ ہوتی۔ جیسے بے حس پتھر، جسے آپ جہاں چاہیں رکھ دیں یا ایک گدھا جسے جہاں چاہیں باندھیں۔