نعمات ارضی و سماوی


ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّکُمۡ مِّنۡہُ شَرَابٌ وَّ مِنۡہُ شَجَرٌ فِیۡہِ تُسِیۡمُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہیں پینے کو ملتا ہے اور اس سے درخت اگتے ہیں جن میں تم جانور چراتے ہو۔

یُنۡۢبِتُ لَکُمۡ بِہِ الزَّرۡعَ وَ الزَّیۡتُوۡنَ وَ النَّخِیۡلَ وَ الۡاَعۡنَابَ وَ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ جس سے وہ تمہارے لیے کھیتیاں، زیتون کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقینا نشانی ہے۔

وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ۙ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ وَ النُّجُوۡمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے اور ستارے بھی اس کے حکم سے مسخر ہیں،عقل سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقینا نشانیاں ہیں۔

10 تا 12۔ مذکورہ پھلوں کی فراہمی اہل فکر کو بتاتی ہے کہ یہ اندھے اتفاق اور ناداں بے شعور طبیعیت کا کام نہیں ہے بلکہ ان چیزوں کی فراہمی کے پیچھے ایک شعور ایک ارادہ کارفرما ہے، ورنہ آسمان سے برسنے والا پانی انسان اور روئے زمین پر موجود باقی چیزوں کے لیے مفید و مناسب نہ ہوتا۔ زمین سے اگنے والی چیزوں کا انسان اور باقی جانوروں کے مزاج اور طبیعت کے عین مطابق اور مفید ہونا بھی ضروری نہ تھا۔ لہٰذا ان مختلف چیزوں کا ایک دوسرے کے لیے ضروری ہونا اور باہم موافق طبع ہونا بتاتا ہے کہ ان چیزوں کی تخلیق کے پیچھے ایک حکیمانہ ذہن کارفرما ہے۔ کھیتی کی افادیت اور زیتون، کھجور اور انگور کے انسانی جسم کی ساخت و بافت کے ساتھ نہایت سازگار ہونے کی وجہ سے ممکن ہے ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہو۔