آیات 7 - 8
 

وَ تَحۡمِلُ اَثۡقَالَکُمۡ اِلٰی بَلَدٍ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا بٰلِغِیۡہِ اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِ ؕ اِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ۙ﴿۷﴾

۷۔اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر ایسے علاقوں تک لے جاتے ہیں جہاں تم جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے، تمہارا رب یقینا بڑا شفیق، مہربان ہے۔

وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً ؕ وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اور (اس نے) گھوڑے خچر اور گدھے بھی (اس لیے پیدا کیے) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور تمہارے لیے زینت بنیں، ابھی اور بھی بہت سی چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔

تفسیر آیات

ان آیات کا بھی تعلق تدبیر حیات انسان کے بیان سے ہے کہ اللہ تمہاری زندگی کی تدبیر کرتا ہے، نہ کہ تمہارے شریک۔

۱۔ وَ تَحۡمِلُ اَثۡقَالَکُمۡ اِلٰی بَلَدٍ یہ حیوانات انسان کے کن مقاصد کے لیے مسخر ہیں ؟ ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان سے حمل و نقل کا کام انجام پاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کی تخلیق کی غرض و غایت یہ بتائی ہے کہ انسان کو نقل و حمل میں مشقت پیش نہ آئے۔ اس سے اللہ کی بندوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا پتہ چلتا ہے کہ اس نے انسان کے آرام و سہولت کے لیے ان حیوانات کو خلق فرمایا ہے۔

۲۔ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً: اور سواری میں کام آنے والے حیوانات کے بھی دو مقاصد بیان کیے۔ ایک یہ کہ سواری کے کام آئے اور دوسرا یہ کہ زیب و زینت کا کام دیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کو اللہ تعالیٰ نے اہمیت دی ہے اور اسے زندگی کے لوازم میں قرار دیا ہے چونکہ جمالیات کو اللہ نے فطرت میں ودیعت فرمایا ہے۔

۳۔ وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ: اللہ ایسی چیزیں خلق فرمائے گا جو تم نہیں جانتے۔ حمل و نقل اور سواری کے سلسلے میں صرف نزول قرآن کا زمانہ اور اسی ماحول کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ کی جامع تعبیر سے ہر اس چیز کی طرف اشارہ مل گیا جو اس سلسلے میں رہتی دنیا تک پیدا ہونے والی ہیں۔ تمدن و ترقی میں حمل و نقل کو اہمیت حاصل ہے اور دنیا اس میں جو ایجادات کر رہی ہے۔ وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ آج کی ایجادات عصر قرآن کی مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ تھیں اور کل ہونے والی ایجادات آج ہمارے لیے مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ہیں۔ اس طرح ہر نسل کے لیے آیت کا خطاب مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ زندہ رہے گا۔

یہ ایجادات تو انسانوں کی ہیں۔ انہیں اللہ کی طرف کیوں نسبت دی جاتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ جس طرح کشتی کی صنعت کو اللہ کی طرف نسبت دی جاتی ہے، یہ بھی اس لیے ہے کہ انسان، اس کی صلاحیت اور جس مواد کا استعمال ہوا اسے اللہ نے پیدا کیا ہے۔ انسان نے صرف ان رازہائے قدرت کا انکشاف کیا ہے، لہٰذا خلقت اللہ کی ہے۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کو اپنے بندوں سے محبت ہے، ان کی مشقت پسند نہیں: اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِ ۔۔۔۔

۲۔ حمل و نقل میں ایجادات کی طرف اشارہ: وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۔


آیات 7 - 8