آیت 100
 

وَ رَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الۡعَرۡشِ وَ خَرُّوۡا لَہٗ سُجَّدًا ۚ وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ ہٰذَا تَاۡوِیۡلُ رُءۡیَایَ مِنۡ قَبۡلُ ۫ قَدۡ جَعَلَہَا رَبِّیۡ حَقًّا ؕ وَ قَدۡ اَحۡسَنَ بِیۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِیۡ مِنَ السِّجۡنِ وَ جَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّیۡطٰنُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَ اِخۡوَتِیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ اور یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب ان کے آگے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا:اے ابا جان! یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا، بتحقیق میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا اور اس نے سچ مچ مجھ پر احسان کیا جب مجھے زندان سے نکالا بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈالا آپ کو صحرا سے (یہاں) لے آیا، یقینا میرا رب جو چاہتا ہے اسے تدبیر خفی سے انجام دیتا ہے، یقینا وہی بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

تشریح کلمات

الۡبَدۡوِ:

( ب د و ) ہر وہ مقام جہاں کوئی عمارت وغیرہ نہ ہو اور تمام چیزیں ظاہر نظر آتی ہوں اسے بدو یا، بادیہ کہا جاتا ہے اور البادی کے معنی صحرا نشین کے ہیں۔

نَّزَغَ:

( ن ز غ ) النزغ کے معنی کسی کام کو بگاڑنے کے لیے اس میں دخل انداز ہونے کے ہیں۔

لَطِیۡفٌ:

(ل ط ف) لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسانی حواس نہ کر سکتے ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ رَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الۡعَرۡشِ: حضرت یوسف علیہ السلام نے والدین کو تخت پر بٹھایا۔ اگر تخت سے مراد تخت حکومت لیا جائے تو اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یوسف علیہ السلام مصر کے تخت نشین بادشاہ بن گئے تھے لیکن ممکن ہے کہ تخت شاہی نہ ہو، اس سے کمتر کوئی تخت ہو۔ چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام اقلاً مصر میں بادشاہ کے بعد سب سے اہم منصب پر فائز تھے۔ چنانچہ خود قرآن حضرت یوسف علیہ السلام کو عزیز کے نام سے یاد کرتا ہے اور ساتھ بادشاہ کا بھی ذکر کرتا ہے۔ مورخین نے بھی تاریخ مصر میں بادشاہوں کے سلسلہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ حضرت یوسف علیہ السلام کے معاصر بادشاہوں کا ذکر کیا ہے۔

۲۔ وَ خَرُّوۡا لَہٗ سُجَّدًا: اور سب یوسف علیہ السلام کے آگے سجدے میں گر پڑے۔ سجدے سے مراد وہ اصطلاحی سجدہ نہیں جو شریعت اسلامی میں رائج ہے۔ یعنی ہاتھ گھٹنے اور پیشانی زمین پر رکھنا۔ یہ سجدہ کسی بھی شریعت میں غیر اللہ کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ یہاں لفظ سجدہ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ لغت میں سجدہ جھکنے کے معنوں میں آتا ہے۔ صحاح میں آیا سجد خضع۔ سجد الرجل طاطا راسہ ۔ سرجھکانے کو سجدہ کہتے ہیں اور لفظ خرّ سے بھی یہ نہیں سمجھا جاتا کہ زمین پر گرے ہیں۔ خرّ مطلق زمین کی طرف جھکنے کے معنوں میں ہے۔ جیسے:

وَ خَرَّ رَاکِعًا وَّ اَنَابَ ( ۳۸ صٓ: ۲۴)

اور عاجزی کرتے ہوئے جھک گئے اور (اللہ کی طرف) رجوع کیا۔

لہٰذا اس سجدے کے بارے میں کسی توجیہ و تاویل اور تکلف کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ بڑے بڑے مفسرین نے کی ہے کیونکہ یہ سجدہ ایک قسم کا تعظیمی آداب تھا جو ذرا زمین کی طرف جھک کر بجا لایا جاتا تھا اور یہ بات بہت قدیم قوموں کے آداب و رسوم میں رائج تھی۔

۳۔ وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ: برسوں کی جدائی کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام اس عرصہ میں پیش آنے والے اہم واقعات کا اپنے والد بزرگوار سے ذکر کرتے ہیں۔

الف۔ ہٰذَا تَاۡوِیۡلُ رُءۡیَایَ: سب سے پہلے اس بات کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جو خواب بچپن میں دیکھا تھا اللہ نے اسے سچ کر دکھایا۔

ب۔ اِذۡ اَخۡرَجَنِیۡ مِنَ السِّجۡنِ: اللہ نے مجھے قید سے آزاد کر کے مجھ پر احسان کیا۔ والد کو اپنی سرگزشت سناتے ہوئے یہ نہیں بتایا لوگوں نے مجھے قید میں ڈال دیا۔ اس واقعہ کا تلخ پہلو نہیں ، شیرین پہلو بتا دیتے ہیں۔

ج۔ وَ جَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ: آپؑ کو صحرا سے یہاں لے آیا۔ شیطان کے میرے اور میرے برادران میں فساد ڈالنے کے بعد۔ یہاں بھی اس واقعہ کا شیرین پہلو بتا دیا اور تلخ پہلو کا ذکر کچھ اس طرح فرمایا کہ برادران کو خفت سے دوچار نہ ہونا پڑے کہ شیطان نے ہمارے درمیان فساد ڈالا ہے۔

د۔ ضمناً اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ دیہات کی بہ نسبت شہر کو، جو مرکز تہذیب و تمدن ہوتا ہے، فضیلت حاصل ہے۔

آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے متعدد طرق سے روایت ہے۔ سات ایسے گناہان کبیرہ ہیں جن کا ارتکاب کرنے والا آتش جہنم کا مستحق ہے۔

i۔ جان بوجھ کر قتل کرنا۔

ii۔ عفیفہ عورت پر بے عفتی کا الزام عائد کرنا۔

iii۔ سود خوری۔

iv۔ جنگ سے فرار۔

v۔ شہر کی طرف ہجرت کے بعد دوبارہ صحرا نشینی اختیار کرنا۔

vi۔ والدین سے عاق ہونا۔

vii۔ یتیم کا مال کھانا۔

آخر میں فرمایا: شہر کی طرف ہجرت کے بعد صحرا نشینی اختیار کرنا اور شرک کرنا ایک ہی چیز ہے۔ (اصول کافی ۲: ۲۷۷۔۲۸۱)

اہم نکات

۱۔ فاتح کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے شکست کھانے والے کا دل شکستہ ہو جائے۔ یوسف علیہ السلام نے کنویں کے واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔

۲۔دیہی زندگی سے شہری زندگی بہتر ہے: وَ جَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ ۔۔۔۔


آیت 100