آیات 91 - 92
 

قَالُوۡا تَاللّٰہِ لَقَدۡ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَ اِنۡ کُنَّا لَخٰطِئِیۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ انہوں نے کہا: قسم بخدا! اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور ہم ہی خطاکار تھے۔

قَالَ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ؕ یَغۡفِرُ اللّٰہُ لَکُمۡ ۫ وَ ہُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔ یوسف نے کہا: آج تم پر کوئی عتاب نہیں ہو گا، اللہ تمہیں معاف کر دے گا اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے

تشریح کلمات

تَثۡرِیۡبَ:

( ث ر ب ) التثریب کے معنی ہیں کسی کو اس کی غلطی پر سرزنش کرنا۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالُوۡا تَاللّٰہِ: برادران یوسف نے اس مقام پر یوسف کو پہچانا اور ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ خود کس مقام پر کھڑے ہیں۔ چنانچہ قسم کھا کر اعتراف کیا کہ یوسف علیہ السلام کو اللہ نے فضیلت دی ہے اور وہ خود خطاکار ہیں۔ جب خطاکار اپنی خطا کا اعتراف کرتا ہے تو صاحب فضیلت اپنے فضل کا ثبوت فراہم کرتا ہے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اس اعتراف کے جواب میں فرمایا: قَالَ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ۔۔۔۔ اب تمہارے خلاف کوئی سرزنش اور عتاب نہ ہو گا۔ یہ کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی فضلیت بیان نہ کی بلکہ اخلاق کی برتری کا عملی ثبوت فراہم کیا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے جانی دشمنوں سے درگزر فرماتے ہوئے یہی جملہ دھرایا: لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ۔۔۔۔ آج تم پر کوئی عتاب نہ ہوگا اور فرمایا: جیسے میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کہا تھا ویسے ہی میں بھی کہوں گا۔

لیکن یوسف علیہ السلام کے مخاطبین اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخاطبین میں ایک نمایاں فرق موجود ہے۔ وہ یہ کہ یوسف علیہ السلام کے مخاطبین نے قبول کیا کہ آپؑ کو اللہ نے ہم پر فضیلت دی ہے اور اعتراف کیا کہ ہم ہی خطاکار تھے۔ اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ۔۔۔۔ لیکن حضور ؐکے مخاطبین نے نہ حضورؐ کی فضیلت کو دل سے قبول کیا، نہ ہی خطا کار ہونے کا اعتراف کیا۔ اس کے باوجود فرمایا: لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ۔۔۔۔

اہم نکات

۱۔ اعتراف گناہ کے بعد معاف کرنا اخلاق الٰہی و انبیاء ہے: لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ؕ یَغۡفِرُ اللّٰہُ لَکُمۡ ۔۔۔


آیات 91 - 92