یُبَشِّرُہُمۡ رَبُّہُمۡ بِرَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَ رِضۡوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّہُمۡ فِیۡہَا نَعِیۡمٌ مُّقِیۡمٌ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ان جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے دائمی نعمتیں ہیں۔

19 تا 21۔ عباس بن عبد المطلب اور شیبہ آپس میں مفاخرہ کر رہے تھے۔ عباس اس بات پر فخر کر رہے تھے کہ مجھے حاجیوں کو آب زم زم پلانے کا شرف حاصل ہے۔ شیبہ کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ کعبہ کا معمار ہے۔ اسی اثنا میں حضرت علی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا۔آپ علیہ السلام نے فرمایا: اگرچہ میں آپ دونوں سے کم عمر ہوں، مگر جو شرف مجھے حاصل ہے، آپ دونوں کو حاصل نہیں ہے۔ دونوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ میں نے تلوار سے آپ دونوں کی ناک رگڑوا دی جس کی وجہ سے آپ دونوں اللہ اور اس کے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لے آئے۔ اس پر یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے مؤقف کی تائید میں نازل ہوئی۔ اس مضمون روایت کو مختلف الفاظ کے ساتھ خود عباس، ابوذر، بریدہ، محمد بن کعب اور انس وغیرہ نے نقل کیا ہے۔

ایمان و خلوص سے خالی تعمیر مسجد اور حاجیوں کی خدمت پر ایمان و جہاد کو فضیلت دیتے ہوئے اس مومن و مجاہد کے لیے درج فضائل بھی بیان ہوئے: 1۔ وہ نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں: اَعۡظَمُ دَرَجَۃً 2۔ کامیابی انہیں کو حاصل ہے: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ۔ 3۔ جنت و رضوان رحمت کی نوید: یُبَشِّرُہُمۡ رَبُّہُمۡ بِرَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَ رِضۡوَانٍ 4۔ ابدی نعمت کی نوید: لَّہُمۡ فِیۡہَا نَعِیۡمٌ مُّقِیۡمٌ 5۔جنت میں دائمی زندگی کی نوید: خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا 6۔ اجر عظیم کی بشارت اس کے علاوہ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ۔

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ﴿۲۲﴾

۲۲۔ ان میں وہ ابد تک رہیں گے، بے شک اللہ کے پاس عظیم ثواب ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰبَآءَکُمۡ وَ اِخۡوَانَکُمۡ اَوۡلِیَآءَ اِنِ اسۡتَحَبُّوا الۡکُفۡرَ عَلَی الۡاِیۡمَانِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اے ایمان والو! تمہارے آبا اور تمہارے بھائی اگر ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں تو انہیں اپنا ولی نہ بناؤ اور یاد رکھو کہ تم میں سے جو لوگ انہیں ولی بنائیں گے پس ایسے ہی لوگ تو ظالم ہیں۔

23۔ رشتہ داری، مال و دولت، کاروبار اور پسندیدہ مکانات عموماً ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی محبت اور چاہت دینی مؤقف سے ٹکراتی ہے۔ ایسے مواقع پر اکثر لوگ دینی ذمہ داری اور مؤقف کو نظر انداز کر کے مذکورہ چیزوں کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔ دوسری طرف سے چونکہ دین کو مانتے بھی ہیں۔ لہٰذا مفادات سے غیر متصادم دینی تقاضوں پر عمل کرتے ہیں اور خود کو مومن سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ آیات ایسے ہی اہل ایمان سے مخاطب ہیں۔

مومن کے لیے اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ دو حالتیں پیش آ سکتی ہیں: ٭خالصتاً انسانی حالت، جس میں ان رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا اپنے کسی دینی مؤقف کے ساتھ متصادم نہیں ہے، اس صورت میں ان کے ساتھ نیکی کرنا چاہیے۔٭ اگر ان رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا، ان پر احسان کرنا اور ان کے ساتھ نیکی کرنا اپنے دینی مؤقف کے ساتھ متصادم ہو تو یہاں اسے دین یا رشتہ دار میں سے ایک کو اختیار کرنا ہو گا۔

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿٪۲۴﴾

۲۴۔کہدیجئے:تمہارے آبا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔

24۔ خطاب اہل ایمان سے ہے کہ اگر تمہارے دلوں میں ایمان ہے تو ان دلوں میں ایمان کے منافی چیزوں کے لیے گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اگر ایمان کے منافی چیز کی دل پر حاکمیت ہے تو یہ ایمان کی نفی ہے۔

لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾

۲۵۔ بتحقیق بہت سے مقامات پر اللہ تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی، جب تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔

25۔ فتح مکہ کے بعد طائف اور گرد و پیش کے جنگجو قبائل ہوازن نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ چار ہزار افراد پر مشتمل لشکر مال و اولاد کو ساتھ لے کر میدان میں آ گیا۔ ان کے مقابلے کے لیے رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بارہ ہزار کا لشکر لے کر نکلے۔ ان میں سے دو ہزار فتح مکہ کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے طلقاء (آزاد کردہ لوگ ) تھے۔ لشکر اسلام حضرت علی علیہ السلام کی علمداری میں وادی حنین میں اتر رہا تھا کہ قبیلہ ہوازن نے اچانک ہلہ بول دیا اور گھاٹیوں میں چھپے ہوئے دستوں نے چاروں طرف تیروں کی بارش کر دی جس سے لشکر اسلام بری طرح پسپا ہو گیا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد صرف دس افراد جمے رہے۔ مسلمانوں کی پسپائی کے موقع پر ابوسفیان کا یہ جملہ مشہور ہے: اب مسلمانوں کی شکست سمندر تک چلی جائے گی۔ بعد میں حضرت عباسؓ کی آواز پر سب واپس آ گئے اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یوں لشکر کفر پسپا ہو گیا۔ اس جنگ میں لشکر کفر کے ستر افراد مارے گئے۔ صرف حضرت علی علیہ السلام نے چالیس افراد کو قتل کیا۔

ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ عَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر اتارے اور کفار کو عذاب میں مبتلا کر دیا اور کفر اختیار کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔

ثُمَّ یَتُوۡبُ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۲۷﴾

۲۷۔ پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اے ایمان والو! مشرکین تو بلاشبہ ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد الحرام کے قریب نہ آنے پائیں اور اگر (مشرکین کا داخلہ بند ہونے سے) تمہیں غربت کا خوف ہے تو (اس کی پرواہ نہ کرو) اگر اللہ چاہے تو جلد ہی تمہیں اپنے فضل سے بے نیاز کر دے گا یقینا اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے ۔

28۔ اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ : لفظ نجس قرآن میں اس معنی میں استعمال ہوا ہے جو لغت میں عربوں کے درمیان مستعمل تھے۔ جدید فقہی اصطلاح میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا عین ممکن ہے نجاست سے مراد نفسانی یا کردار کی پلیدی ہو اور ممکن ہے کہ پلید سے مراد حسی ہو، اس کا فیصلہ سنت و سیرت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و ائمہ علیہ السلام کی روشنی میں فقہاء کرتے ہیں۔

فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ : نجاست کا جو بھی مفہوم مراد لیا جائے اس نجاست کی وجہ سے مشرکین کے لیے مسجد الحرام میں داخلہ ممنوع ہو گیا،کیونکہ اس مسجد میں داخل ہونے کے لیے جس طہارت کی ضرورت ہے وہ شرک و کفر کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔

قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ اہل کتاب میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام کیا ہے اسے حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق بھی قبول نہیں کرتے، ان لوگوں کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔

29۔ اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کے بارے میں معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کی وضاحت کے ساتھ اس قانون کا پرچار کرنا چاہیے۔

اسلام کسی نظریے کو قبول یا رد کرنے کے لیے جبر کو برداشت نہیں کرتا۔ اہل کتاب نے روزِ اول سے آج تک آزادانہ طور پر اسلام قبول کرنے والوں کے خلاف ہر ممکن سازش کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ وہ آج بھی مسلمانوں کے اپنے ہی وطن میں اپنے دین کا پرچار کرنے کو برداشت نہیں کرتے۔ اسلامی حکومت اہل کتاب کو ہر قسم کی آزادی دینے کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ان سے دو چیزیں چاہتی ہے: اول یہ کہ وہ جزیہ دیں۔ اسلامی حکومت اپنی مسلم رعایا سے زکوٰۃ اور غیر مسلم رعایا سے جزیہ وصول کرتی ہے۔ اس کے عوض اسلامی حکومت ان کی جان و مال اور عزت و ناموس کا تحفظ فراہم کرتی ہے اور جیسے مسلمانوں کا دفاع کرتی اور اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے کی اجازت دیتی ہے، اسی طرح ان کا بھی دفاع کرتی اور انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ جو لوگ محنت مزدوری کرنے پر قادر نہیں ہیں انہیں بیت المال سے مسلمانوں کے برابر حصہ ملتا ہے۔دوم یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی رعیت بن کر رہیں، نخوت و تکبر ترک کریں۔ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ یعنی اسلامی ریاست کا ماتحت تسلیم کر کے جزیہ دیں۔ عورتوں بوڑھوں، نابیناؤں، معذوروں اور دیوانوں سے جزیہ، ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا، بلکہ ان کو بلا معاوضہ تحفظ دیا جائے گا۔

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِـُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں ان لوگوں کی باتوں کے مشابہ ہیں جو ان سے پہلے کافر ہو چکے ہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے، یہ کدھر بہکتے پھرتے ہیں؟