مذہبی آزادی کے خلاف اہل کتاب کی سازش


قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ اہل کتاب میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام کیا ہے اسے حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق بھی قبول نہیں کرتے، ان لوگوں کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔

29۔ اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کے بارے میں معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کی وضاحت کے ساتھ اس قانون کا پرچار کرنا چاہیے۔

اسلام کسی نظریے کو قبول یا رد کرنے کے لیے جبر کو برداشت نہیں کرتا۔ اہل کتاب نے روزِ اول سے آج تک آزادانہ طور پر اسلام قبول کرنے والوں کے خلاف ہر ممکن سازش کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ وہ آج بھی مسلمانوں کے اپنے ہی وطن میں اپنے دین کا پرچار کرنے کو برداشت نہیں کرتے۔ اسلامی حکومت اہل کتاب کو ہر قسم کی آزادی دینے کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ان سے دو چیزیں چاہتی ہے: اول یہ کہ وہ جزیہ دیں۔ اسلامی حکومت اپنی مسلم رعایا سے زکوٰۃ اور غیر مسلم رعایا سے جزیہ وصول کرتی ہے۔ اس کے عوض اسلامی حکومت ان کی جان و مال اور عزت و ناموس کا تحفظ فراہم کرتی ہے اور جیسے مسلمانوں کا دفاع کرتی اور اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے کی اجازت دیتی ہے، اسی طرح ان کا بھی دفاع کرتی اور انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ جو لوگ محنت مزدوری کرنے پر قادر نہیں ہیں انہیں بیت المال سے مسلمانوں کے برابر حصہ ملتا ہے۔دوم یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی رعیت بن کر رہیں، نخوت و تکبر ترک کریں۔ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ یعنی اسلامی ریاست کا ماتحت تسلیم کر کے جزیہ دیں۔ عورتوں بوڑھوں، نابیناؤں، معذوروں اور دیوانوں سے جزیہ، ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا، بلکہ ان کو بلا معاوضہ تحفظ دیا جائے گا۔