آیات 25 - 27
 

لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾

۲۵۔ بتحقیق بہت سے مقامات پر اللہ تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی، جب تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔

ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ عَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر اتارے اور کفار کو عذاب میں مبتلا کر دیا اور کفر اختیار کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔

ثُمَّ یَتُوۡبُ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۲۷﴾

۲۷۔ پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

رَحُبَتۡ:

( ر ح ب ) جگہ کی وسعت کو کہتے ہیں۔ رحبۃ المسجد مسجد کے کھلے صحن کو کہتے ہیں۔

جُنُوۡدًا:

( ج ن د ) الجند کے اصل معنی پتھریلے علاقے کے ہیں ، شدت اور غلظت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

اس آیہ شریفہ میں ۹ ہجری میں فتح مکہ کے بعد واقع ہونے والی رسول کریمؐ کی آخری جنگ حنین کا ذکر ہے۔

حنین مکہ اور طائف کے درمیان واقع ایک وادی کا نام ہے۔ فتح مکہ کے بعد طائف اور گرد و پیش کے جنگجو قبیلہ ہوازن کو بھی یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں مسلمان ان پر حملہ نہ کردیں ، لہٰذا قبل اس کے کہ مسلمان ان پر حملہ کریں ، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود مسلمانوں پر حملہ کریں گے۔ قبیلہ ہوازن کی متعدد شاخیں جو سو کے قریب تھیں ، مکہ سے طائف تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان میں طائف کے رہنے والے بنو ثقیف بھی شامل تھے۔ یہ تمام شاخیں مالک بن عوف کی سربراہی میں جمع ہو گئیں۔ صرف بنی کعب اور بنی کلاب اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ وہ اپنی بیوی بچوں اور مال و مویشی ہمراہ لے کر میدان میں آئے تاکہ مال و اولاد زنجیر پا بن جائیں اور میدان جنگ سے فرار کے لیے کوئی گنجائش نہ رہے۔ ان کا لشکر چار ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھا۔

ان کے مقابلے کے لیے رسول اسلامؐ بارہ ہزار کا لشکر لے کر نکلے۔ ان میں سے دس ہزار مدینے کے انصار و مہاجرین پر مشتمل تھے اور دو ہزار فتح مکہ کے بعد کراہۃً دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے لوگ تھے، جن کو طلقا (آزاد کردہ) کہا جاتا ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل تھے جو شکست کی صورت میں مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے نکلے تھے۔ چنانچہ وقتی شکست کے موقع پر ایسے لوگوں کا چہرہ بے نقاب ہو گیا تھا اور فتح کے بعد رسول کریمؐ نے ان کو تالیف قلب کے طور پر دیگر مسلمانوں سے زیادہ غنیمت سے حصہ دیا۔

لشکر اسلام کے پاس فتح مکہ کے بعد بھی ضرورت کا سامان حرب موجود نہ تھا۔ چنانچہ قریش مکہ سے کافی مقدار میں سامان حرب عاریۃً لیا گیا اور حضرت علی علیہ السلام کی علمداری میں لشکر اسلام وادی حنین کی طرف روانہ ہو گیا۔ رسالتمآبؐ کو یہ خبر دی گئی کہ قبیلہ ہوازن مال و اولاد ساتھ لے کر مقابلے پر آرہا ہے تو آپؐ نے فرمایا: یہ سارا مال و متاع غنیمت بن کر مسلمانوں کے ہاتھ آئے گا۔

اس سے پہلے مسلمان ایک مختصر لشکر کے ساتھ کفار سے برسر پیکار رہے۔ آج پہلی بار ایک طاقتور لشکر لے کر میدان میں اتر رہے تھے اور کافروں کا لشکر نسبتاً مختصر تھا۔ اس لیے طبعی طور پر مسلمانوں میں غرور آ گیا اور ان میں کاہلی بھی آگئی۔

لشکر اسلام صبح کے وقت وادی میں اتر رہا تھا، قبیلہ ہوازن نے دفعتاً ہلہ بول دیا اور اردگرد کی گھاٹیوں میں چھپے ہوئے دستوں نے ہر طرف سے حملہ کر دیا اور چار سو سے تیروں کی بارش شروع ہو گئی، جس سے لشکر اسلام بری طرح منتشر ہو کر پسپا ہو گیا اور رسولؐ کے گرد مٹھی بھر چند افراد جمے رہے۔

حضرت علیؑ اور عباسؓ حضورؐ کے سامنے، ابوسفیان بن الحارث بن عبد ا لمطلب لگام تھامے ہوئے اور ابن مسعود بائیں طرف تھے۔ بعض روایات کے مطابق صرف یہی چار افراد ثابت قدم رہے۔ ( فتح الباری )

بعض دیگر روایات میں ملتا ہے کہ ثابت قدم رہنے والوں کی تعداد ۹ تھی اور دسویں ام ایمن کے بیٹے ایمن بن عبید تھے۔ یہی روایت قرین حق معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کے راوی حضرت عباسؓ ہیں جو پورے واقعہ میں رسول اللہؐ کے ساتھ رہے اور ایک ٹیلے پر چڑھ کر بھاگنے والوں کو آواز دینے والے بھی حضرت عباسؓ ہی تھے اور اپنے فخر و مباہات میں جو شعر کہا ہے، اس میں بھی یہ تعداد آگئی۔

نصرنا رسول اللہ فی الحرب تسعۃ

و قد فرّ من فرّ عنہ فاقشعوا

و عاشرنا لاقی الحمام بنفسہ

لما نالہ فی اللّہ لا یتوجع

ہم نے رسول اللہؐ کی اس وقت مدد کی جب میدان جنگ میں صرف نو افراد رہ گئے تھے جب کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر بھاگنے والے ایسے بھاگے کہ تتر بتر ہو گئے۔ جب کہ ہمارا دسواں جان بحق ہوگیا۔ راہ خدا میں جو بھی مصیبت پیش آئے، وہ محسوس ہی نہیں ہوتی۔

حضورؐ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ اصحاب کو پکاریں کہ وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے شجرہ کے نیچے جہاد کرنے کی بیعت کی تھی۔ حضرت عباسؓ کی آواز پر تمام اصحاب واپس آ گئے، دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اللہ نے بھی ایک نامرئی لشکر بھیج کر لشکر اسلام کی مدد فرمائی۔ لشکر کفر پسپا ہو گیا اور لشکر کفر کے ستر سرداران مارے گئے۔ صرف حضرت علیؑ نے ان کے چالیس افراد قتل کیے اور ان کا سارامال و متاع مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔ ( تفسیر قرطبی ۸:۹۸)

طعنہ: لشکر اسلام کو جب و قتی طور پر شکست کا سامنا ہوا توان لوگوں نے طعنہ دینا شروع کر دیا جو فتح مکہ کے بعد بظاہر اسلام کے دائرے میں تو آگئے تھے مگر اندر سے اسلام کے خلاف عداوت رکھتے تھے۔ چنانچہ اس موقع پر ابوسفیان کا یہ جملہ بہت مشہور ہے: اب مسلمانو ں کی یہ شکست سمندر تک چلی جائے گی۔

بھاگنے والے کون تھے؟: روایات و تاریخ میں بہت سے نام ملتے ہیں جنہوں نے راہ فرار اختیار کیا تھا اور ثابت قدم رہنے والوں کی تعداد چار، دس اور حد اکثر ایک سو بتائی جاتی ہے۔ بارہ ہزار میں سے اقلاً گیارہ ہزار نو سو کا فرار قابل توجہ ہے۔ جب کہ ان میں وہ انصار و مہاجرین بھی شامل ہیں جنہوں نے حدیبیہ میں درخت سمرہ (کیکر) کے نیچے اس بات پر حضورؐ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ وہ جہاد سے دریغ نہیں کریں گے:

وَ لَقَدۡ کَانُوۡا عَاہَدُوا اللّٰہَ مِنۡ قَبۡلُ لَا یُوَلُّوۡنَ الۡاَدۡبَارَ ؕ وَ کَانَ عَہۡدُ اللّٰہِ مَسۡـُٔوۡلًا (۳۳ا لاحزاب:۱۵)

حالانکہ پہلے یہ لوگ اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ کے ساتھ ہونے والے عہد کے بارے میں بازپرس ہو گی۔

سورہ انفال آیت ۱۵۔ ۱۶ میں یہ حکم بھی پہلے آچکا تھا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ وَ مَنۡ یُّوَلِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ دُبُرَہٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ

اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا اور جس نے اس روز پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو (کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس فتح و شکست کے بنیادی عناصر کون تھے۔ اس سلسلے میں تاریخی حقائق کی روشنی میں جو یقینی شواہد سامنے آتے ہیں ، وہ یہ ہیں :

i۔ ثابت قدم رہنے والے اور رسول اللہؐ کا ساتھ ایک لمحے کے لیے نہ چھوڑنے والے بنی ہاشم کے چند افراد تھے، جن کی ثابت قدمی کی وجہ سے فوج دوبارہ منظم ہو سکی اور لشکر اسلام کو بالآخر فتح مل گئی۔ ورنہ بقول مولانا مودودی: فتح مکہ سے جو کچھ حاصل ہوا تھا، اس سے بہت زیادہ حنین میں کھو دینا پڑتا۔

ii۔ بھاگنے والے اور بھی تھے لیکن اصل محرک وہ لوگ تھے جو فتح مکہ کے بعد کراہۃً بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے جن کو طلقاء کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ قطعاً لڑنے کے لیے شریک جنگ نہیں ہوئے تھے بلکہ موقع کی تلاش کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکلے تھے۔ اس بات پر دو شواہد ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں :

الف: ابو سفیان وغیرہ کی طرف سے وقتی شکست کے موقع پر شماتت اور

ب: رسول اسلامؐ نے مال غنیمت کا حصہ ان لوگوں کو جہاد اور اسلام کے عنوان سے نہیں بلکہ مؤلفۃ القلوب کے عنوان سے دیا اور دوسروں سے زیادہ دیا۔ چنانچہ ابوسفیان کو ایک سو اونٹ دیے گئے اور اس کے بیٹے کو بھی ایک سو اونٹ دیے گئے۔

لہٰذا انصاف پسند ذہن کے لیے اس بات کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔

پوری تاریخ اسلام میں مسلمانوں کی فتح و شکست کے یہی عناصر کارفرما رہے ہیں ، بنی ہاشم اور نبی امیہ۔ خواہ یہ فتح و شکست جنگ کے میدن میں ہو یا اسلامی قدروں کی پاسداری کے میدان میں۔

مواطن کثیرۃ : روایت کے مطابق حضرت امام نقی علیہ السلام نے اس آیت سے استدلال فرمایا ہے کہ کَثِیۡرَۃٍ کو بطور مطلق ذکر کیا جائے تو اسی (۸۰) پر صادق آئے گا، چونکہ اللہ نے ان مقامات کو کَثِیۡرَۃٍ کہا ہے جہاں اپنے رسولؐ کی نصرت فرمائی تھی۔ وہ مقامات ۸۰ ہیں۔

ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ: خطاب لشکر سے ہے اور تعبیر میں اس فرار کی مذمت میں بڑی صراحت موجود ہے کیونکہ صرف یہ نہیں فرمایا: وَلَّیۡتُمۡ تم بھاگ گئے بلکہ مزید صراحت کے لیے فرمایا: مُّدۡبِرِیۡنَ پیٹھ پھیر کر۔

اہم نکات

۱۔ مادی وسائل کی فراوانی سے توکل علی اللہ میں کمی آتی ہے: اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ کثرت کو شکست ہوئی اور فتح اس قلت کی وجہ سے ملی جو ثابت قدم رہی: فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا ۔۔

۳۔ راہ خدا سے فرار اختیار کرنے والوں پر زمین تنگ ہو جاتی ہے: وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ۔۔۔۔

۴۔ جنگ سے فرار اللہ اور رسولؐ سے فرار ہے۔


آیات 25 - 27