آیت 30
 

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِـُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں ان لوگوں کی باتوں کے مشابہ ہیں جو ان سے پہلے کافر ہو چکے ہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے، یہ کدھر بہکتے پھرتے ہیں؟

تشریح کلمات

یُضَاہِـُٔوۡنَ:

( ض ھ ی ) المضاہات کے معنی مشابہ اور مشاکلت کے ہیں۔

الافک:

( ا ف ک ) ہر اس چیز کو کہتے ہیں ، جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔

تفسیر آیات

عزیر (ممکن ہے عزیر، عزرا کی تصغیر ہو اور عرب یہودیوں نے از روئے محبت تصغیر استعمال کی ہو۔) توریت کے تلفظ کے مطابق عزرا (EZRA) غالباً سن ۴۵۰ قبل مسیح تک زندہ تھے۔ بخت نصر کی طرف سے یہودیوں کی تباہی اور بابل کی اسارت کے دوران ان کی توریت نذر آتش ہو گئی۔ وہ ایک صدی پر مشتمل اپنے دور اسیری میں اپنی شریعت، ثقافت اور عبرانی زبان تک بھول چکے تھے۔ عزیر کے زمانے میں بادشاہ ِبابل کی طرف سے اجازت ملنے پر عزیر بنی اسرائیل کو لے کر یروشلم واپس آئے۔ اس طرح یہود عزیر کو نجات دہندہ تصور کرنے لگے اور عزیر نے اپنی یاداشت کی بنیاد پر توریت کی از سر نو تدوین کی اور اس توریت پر کلدانی زبان غالب تھی۔ اہل کتاب کا یہ عقیدہ ہے کہ عزیر نے روح القدس کی طرف سے وحی کے ذریعے توریت کی نئے سرے سے تدوین کی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ عزیر کے پاس توریت کی تدوین کے لیے کوئی ماخذ نہ تھا۔ انہوں نے خود اپنی طرف سے توریت لکھ دی ہے۔ اس لیے آج کے اہل نظر اس توریت کو خود عزیر کا ساختہ و بافتہ قرار دیتے ہیں۔ (المنار ۱۰: ۲۲۶ نقل از انساکلوپیڈیا آف برٹانیکا ترجمہ عربیہ ۹: ۱۴ طبع ۱۹۲۹ء)

قرآن نے پہلے فرمایا تھا:

فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ٭ ثُمَّ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۷۹)

پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو (توریت کے نام سے) ایک کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔

اس طرح عزیر نے بنی اسرائیل کو بابل کی اسارت سے نجات دلائی۔ انہوں نے گم شدہ توریت کی نئے سرے سے تدوین کر کے یہود کے لیے ان کے دین و مذہب کی تجدید کی۔ لہٰذا وہ نجات دہندہ بھی اور مجدد مذہب بھی قرار پائے۔ یہاں سے بعض یہود نے عزیر کو مثیل موسیٰ(ع) اور ابن اللہ کا لقب دینا شروع کیا۔ ممکن ہے ابن اللہ ، اللہ کا چہیتا کے معنوں میں کہا گیا ہو۔ جیسے یہود اپنے آپ کو نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ (۵ مائدہ: ۱۸) (ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ) کہتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہنا دین مسیح میں بولس کی تحریف کے بعد سے آج تک مسلم مانا جاتا ہے۔

یُضَاہِـُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ: یعنی اس قسم کی خرافات کے ان سے پہلے کے بت پرست بھی قائل تھے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ فرشتوں کو اللہ بیٹیاں کہتے تھے اور علی الخصوص یونانی اور رومانی مشرکانہ عقائد سے مسیحیت کا متاثر ہونا آج کے محققین پر واضح ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے یہود و نصاریٰ دونوں یونانی نظریات و عقائد اور حکمت و فلسفہ سے بہت حد تک متاثر ہو چکے تھے۔ اسی طرح مصر، ایران اور دوسرے ممالک کی قومیں بھی اس قسم کی توہم پرستی میں مبتلا تھیں۔

علامہ طباطبائی علیہ الرحمہ اپنی تفسیر المیزان میں اس آیت کے ذیل میں بعض معاصر اہل تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں (Badhist and Christian aspels Edmuds Aj 2) انہوں نے عہدین کا بدھ اور برہمن مذاہب سے مقابلہ کیا ہے اور عہدین کی تعلیمات، حتیٰ بعض قصے کہانیاں تک بدھ اور برہمن مذاہب سے بالکل مشابہ پائی ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے فرزند ہونے کا نظریہ شان الٰہی میں انتہائی گستاخی ہے۔

۲۔ اہل کتاب بت پرستوں کے مشابہ عقیدہ رکھتے ہیں۔


آیت 30