غزوہ حنین


لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾

۲۵۔ بتحقیق بہت سے مقامات پر اللہ تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی، جب تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔

25۔ فتح مکہ کے بعد طائف اور گرد و پیش کے جنگجو قبائل ہوازن نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ چار ہزار افراد پر مشتمل لشکر مال و اولاد کو ساتھ لے کر میدان میں آ گیا۔ ان کے مقابلے کے لیے رسول اسلام ﷺ بارہ ہزار کا لشکر لے کر نکلے۔ ان میں سے دو ہزار فتح مکہ کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے طلقاء (آزاد کردہ لوگ ) تھے۔ لشکر اسلام حضرت علی علیہ السلام کی علمداری میں وادی حنین میں اتر رہا تھا کہ قبیلہ ہوازن نے اچانک ہلہ بول دیا اور گھاٹیوں میں چھپے ہوئے دستوں نے چاروں طرف تیروں کی بارش کر دی جس سے لشکر اسلام بری طرح پسپا ہو گیا اور رسول ﷺ کے گرد صرف دس افراد جمے رہے۔ مسلمانوں کی پسپائی کے موقع پر ابوسفیان کا یہ جملہ مشہور ہے: اب مسلمانوں کی شکست سمندر تک چلی جائے گی۔ بعد میں حضرت عباسؓ کی آواز پر سب واپس آ گئے اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یوں لشکر کفر پسپا ہو گیا۔ اس جنگ میں لشکر کفر کے ستر افراد مارے گئے۔ صرف حضرت علی علیہ السلام نے چالیس افراد کو قتل کیا۔