آیات 19 - 22
 

اَجَعَلۡتُمۡ سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ کَمَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ لَا یَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۘ۱۹﴾

۱۹۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادکاری کو اس شخص کے برابر قرار دیا ہے جس نے اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور راہ خدا میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ۙ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں ۔

یُبَشِّرُہُمۡ رَبُّہُمۡ بِرَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَ رِضۡوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّہُمۡ فِیۡہَا نَعِیۡمٌ مُّقِیۡمٌ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ان جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے دائمی نعمتیں ہیں۔

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ﴿۲۲﴾

۲۲۔ ان میں وہ ابد تک رہیں گے، بے شک اللہ کے پاس عظیم ثواب ہے۔

شان نزول: عباس بن عبد ا لمطلب اور شیبہ آپس میں مفاخرہ کر رہے تھے۔ عباس اس بات پر فخر کر رہے تھے کہ مجھے حاجیوں کو آب زم زم پلانے کا شرف حاصل ہے۔ شیبہ کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ کعبہ کا معمار ہے۔ اسی اثنا میں حضرت علی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا۔ آپؑ نے فرمایا: اگرچہ میں آپ دونوں سے کم عمر ہوں مگر جو شرف مجھے حاصل ہے، وہ آپ دونوں کو حاصل نہیں ہے۔ دونوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ میں نے تلوار سے آپ دونوں کی ناک رگڑوا دی جس کی وجہ سے آپ دونوں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے۔۔۔۔ اس پر یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے مؤقف کی تائید میں نازل ہوئی۔

اس مضمون کی روایت کو مختلف الفاظ کے ساتھ خود عباس، ابوذر، بریدہ، محمد بن کعب اور انس وغیرہم نے نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر طبری ۱۰:۵۹، اسباب النزول صفحہ ۱۸۲، تفسیر خازن، تفسیر معالم التنزیل، جامع الاصول ابن اثیر ۹: ۴۷۷، تفسیرنیشاپوری، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر، فتح القدیر در ذیل آیہ۔

تفسیر آیات

۱۔ اَجَعَلۡتُمۡ سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ: حاجیوں کو پانی پلانا، قابل فخر منصب سمجھا جاتا تھا۔ یہ منصب عبد مناف کی اولاد میں رہا۔ چنانچہ عباس بن عبد ا لمطلب اس منصب پر فائز تھے۔ آج بھی سقایۃ العباس کی جگہ چاہ زم زم کے جنوب میں معروف ہے۔

آیت میں پانی پلانے کے ساتھ ایمان کا ذکر نہیں ہے جب کہ دوسری طرف ایمان کا ذکر ہے۔ لہٰذا یہاں ایمان قبول کرنے سے پہلے کے عمل اور ایمان کے ساتھ بجا لانے والے عمل کے درمیان موازنہ ہے۔ شان نزول کے مطابق چونکہ طرفین ایمان لانے والے تھے۔ اس لیے دوسری آیت میں ایمان کے ساتھ ہجرت کا بھی ذکر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ موازنہ ایسے دو طرفین میں ہے، جن میں سے ایک نے ہجرت کی ہے، دوسرے نے ہجرت نہیں کی اور ساتھ جہاد کا بھی ذکر آیا۔ سقایت حجاج سے جہاد بہتر ہے۔ ایمان اگر ہجرت کے ساتھ ہو تو وہ ایمان بہتر ہے۔

۲۔ اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا: اس آیت میں واضح لفظوں میں فیصلہ ہے۔ ایمان کے بغیر عمل کی کوئی قیمت اور وزن نہیں ہے اور ہجرت سے عمل کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ایمان و خلوص سے خالی تعمیر مسجد اور حاجیوں کی خدمت پر ایمان و جہاد کو فضیلت دیتے ہوئے اس مؤمن و مجاہد کے لیے درج فضائل بھی بیان ہوئے:

i۔ وہ نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں: اَعۡظَمُ دَرَجَۃً ۔۔۔۔

ii۔ کامیابی انہیں کو حاصل ہے: وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ۔

iii۔ جنت و رضوان رحمت کی نوید: یُبَشِّرُہُمۡ رَبُّہُمۡ بِرَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَ رِضۡوَانٍ ۔۔۔۔

iv۔ ابدی نعمت کی نوید: لَّہُمۡ فِیۡہَا نَعِیۡمٌ مُّقِیۡمٌ ۔

v۔ جنت میں دائمی زندگی کی نوید: خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ۔۔۔۔

vi۔ اِنَّ اللہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ اجر عظیم کی بشارت اس کے علاوہ : اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ۔

اہم نکات

۱۔ فاعل میں اگر حسن نہیں ہے تو فعل کا حسن فائدہ نہیں دیتا: اَجَعَلۡتُمۡ سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ۔۔۔۔


آیات 19 - 22