یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰبَآءَکُمۡ وَ اِخۡوَانَکُمۡ اَوۡلِیَآءَ اِنِ اسۡتَحَبُّوا الۡکُفۡرَ عَلَی الۡاِیۡمَانِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اے ایمان والو! تمہارے آبا اور تمہارے بھائی اگر ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں تو انہیں اپنا ولی نہ بناؤ اور یاد رکھو کہ تم میں سے جو لوگ انہیں ولی بنائیں گے پس ایسے ہی لوگ تو ظالم ہیں۔

23۔ رشتہ داری، مال و دولت، کاروبار اور پسندیدہ مکانات عموماً ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی محبت اور چاہت دینی مؤقف سے ٹکراتی ہے۔ ایسے مواقع پر اکثر لوگ دینی ذمہ داری اور مؤقف کو نظر انداز کر کے مذکورہ چیزوں کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔ دوسری طرف سے چونکہ دین کو مانتے بھی ہیں۔ لہٰذا مفادات سے غیر متصادم دینی تقاضوں پر عمل کرتے ہیں اور خود کو مومن سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ آیات ایسے ہی اہل ایمان سے مخاطب ہیں۔

مومن کے لیے اپنے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ دو حالتیں پیش آ سکتی ہیں: ٭خالصتاً انسانی حالت، جس میں ان رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا اپنے کسی دینی مؤقف کے ساتھ متصادم نہیں ہے، اس صورت میں ان کے ساتھ نیکی کرنا چاہیے۔٭ اگر ان رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا، ان پر احسان کرنا اور ان کے ساتھ نیکی کرنا اپنے دینی مؤقف کے ساتھ متصادم ہو تو یہاں اسے دین یا رشتہ دار میں سے ایک کو اختیار کرنا ہو گا۔