فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ ؕ وَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۱﴾

۱۱۔ پس اگر یہ لوگ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور علم رکھنے والوں کے لیے ہم آیات کو واضح کر کے بیان کرتے ہیں۔

11۔ جن لوگوں نے مسلمانوں پر ایک طویل عرصہ ظلم و زیادتی کا سلسلہ روا رکھا آج توبہ کر کے وہ ان کے بھائی بن گئے۔ انہیں بھی وہی حقوق مل گئے جو پرانے ظلم سہنے والوں کے تھے۔البتہ اخروی ثواب اور درجات میں وہ ظلم سہنے والوں کے برابر نہیں ہوں گے۔

وَ اِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَہۡدِہِمۡ وَ طَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ فَقَاتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۙ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمَانَ لَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَنۡتَہُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ لوگ اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین کی عیب جوئی کرنے لگ جائیں تو کفر کے اماموں سے جنگ کرو، کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں شاید وہ باز آجائیں۔

12۔ کفر کے ائمہ میں دو باتیں ہوتی ہیں: ایک بدعہدی دوسری دین کی عیب جوئی۔ مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ کفر کی اس جڑ کو کاٹ دو۔

اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ وَ ہَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَ ہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ اَتَخۡشَوۡنَہُمۡ ۚ فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡہُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنی قسمیں توڑ دیتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا ؟ پہلی بار تم سے زیادتی میں پہل بھی انہوں نے کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔

13۔ اس آیت میں گزشتہ بائیس سالوں میں ہونے والے مظالم کا ذکر ہے: ٭ان لوگوں نے حدیبیہ میں جس معاہدے کی پاسداری کرنے کی قسمیں کھائی تھیں ان قسموں کو توڑ دیا۔ ٭رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو مکے سے ہجرت کرنے پر مجبور ہی نہیں کیا بلکہ ان کو حرم الٰہی اور امن کی جگہ پر قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ ٭جتنی جنگیں لڑی گئیں ان سب میں ان لوگوں نے پہل کی۔

قَاتِلُوۡہُمۡ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ وَ یُخۡزِہِمۡ وَ یَنۡصُرۡکُمۡ عَلَیۡہِمۡ وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ ان سے لڑو تاکہ تمہارے ہاتھوں اللہ انہیں عذاب دے اور انہیں رسوا کرے اور ان پر تمہیں فتح دے اور مومنین کے دلوں کو ٹھنڈا کرے۔

وَ یُذۡہِبۡ غَیۡظَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور ان کے دلوں کا غصہ نکالے اور اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

14۔15 ان سے جنگ کرو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت و ارادے کے لیے سبب بنائے گا اور تمہارے ہاتھوں اللہ ان کو عذاب دے گا۔ اس سے ان مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچے گی جن کو ان مشرکوں نے آزار پہنچایا تھا اور مسلمانوں کی فتح و نصرت دیکھ کر ان ظالموں کے بارے میں جو غیظ و غضب ہے وہ فرو ہو جائے گا۔

انسان اپنے افعال میں خود مختار ہیں یا مجبور، اہل سنت کے ہاں دو نظریے ہیں۔ ایک اشعری مذہب جو جبر کا قائل ہے اور اہل سنت کا اکثریتی مذہب ہے۔ دوسرا معتزلہ جو خود مختاری اور تفویض کا نظریہ رکھتا ہے۔ یہ مذہب آج کل تقریباً متروک ہو چکا ہے۔ اشعری مذہب والے اپنے نظریہ جبر پر اس آیت کے جملہ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں: دیکھیے عذاب کو اللہ نے اپنا فعل قرار دیا ہے اور یہ فعل مسلمانوں کے ہاتھ سے صرف آلہ کے طور پر صادر ہو رہا ہے، لہٰذا ثابت ہوا ہے کہ تمام افعال اللہ کے ہیں، بندے تلواروں اور نیزوں کی طرح صرف آلہ ہیں۔

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تُتۡرَکُوۡا وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ وَ لَمۡ یَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لَا رَسُوۡلِہٖ وَ لَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَلِیۡجَۃً ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۱۶﴾

۱۶۔ کیا تم لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے؟ حالانکہ اللہ نے ابھی یہ بھی نہیں دیکھا ہے کہ تم میں سے کس نے جہاد کیا اور کس نے اللہ ، اس کے رسول اور مومنین کے سوا کسی اور کو اپنا بھیدی نہیں بنایا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

16۔ اظہار ایمان کے لیے زبان ہلا دینا نہایت آسان ہے، مگر اس زبانی دعویٰ کے پیچھے دل میں کیا ہے؟ وہ صرف آزمائش ہی کے ذریعے فاش ہوتا ہے۔ لہٰذا ضمیروں کا فاش کرنا اور دلوں میں چھپے ہوئے کافرانہ بھیدوں کو طشت از بام کرنا اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے اواخر میں منافقوں اور حاطب بن ابی بلتعہ جیسے کمزور ایمان والوں کا ایک قابل توجہ گروہ مشرکین کے ساتھ خفیہ روابط رکھتا تھا اور وہ مشرکین مکہ کے لیے مخبری کرتے تھا، لہٰذا یہ بات ضروری ہو گئی تھی کہ خداوند واضح کرے کہ سچے مومن کون ہیں اور صرف دعویٰ ایمان کرنے والے کون ہیں؟

مَا کَانَ لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ بِالۡکُفۡرِ ؕ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ ۚۖ وَ فِی النَّارِ ہُمۡ خٰلِدُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ مشرکین کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں درحالیکہ وہ خود اپنے کفر کی شہادت دے رہے ہیں، ان لوگوں کے اعمال برباد ہو گئے اور وہ آتش میں ہمیشہ رہیں گے۔

17۔ شرک باللہ چونکہ عبادت اور عبودیت کے منافی ہے اس لیے مشرکوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کی عبادت کے لیے مسجدیں آباد کریں۔ کیونکہ جن کا عقیدہ صحیح نہیں ہے ان کی عبادت بھی صحیح نہیں۔

اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔اللہ کی مسجدوں کو صرف وہی لوگ آباد کر سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور نماز قائم کرتے ہوں نیز زکوٰۃ ادا کرتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھاتے ہوں، پس امید ہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

18۔ جو لوگ نماز و زکوٰۃ کے پابند نہیں اور اللہ کے علاوہ دل میں دوسروں کا خوف رکھتے ہیں وہ مسجد کے متولی نہیں بن سکتے۔

اَجَعَلۡتُمۡ سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ کَمَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ لَا یَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۘ۱۹﴾

۱۹۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادکاری کو اس شخص کے برابر قرار دیا ہے جس نے اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور راہ خدا میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ۙ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں ۔