اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ سُبۡحٰنَہٗ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ انہوں نے اللہ کے علاوہ اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مسیح بن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ذات ان کے شرک سے پاک ہے۔

یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ یہ لوگ اپنی پھونکوں سے نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں مانتا اگرچہ کفار کو ناگوار گزرے۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ﴿۳۳﴾ ۞ؒ

۳۳۔ اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے۔

33۔ ادیان عالم میں صرف اسلام وہ دین ہے جس کا دستور (قرآن) حرف بحرف محفوظ ہے اور جس کی بنیادی تعلیمات تواتر اور قطعی ذرائع کے ساتھ محفوظ ہیں۔

مفسرین کو اس آیت کی تفسیر کرنے میں دشواری پیش آئی ہے کہ اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا۔ ہمارے نزدیک اس کی صحیح تفسیر یہ ہے: جب انسانیت مادیت کی تاریکی میں مزید ڈوب جائے گی اور امن و سکون عنقا ہو جائے گا، اس وقت لوگ ایک نجات دہندہ کو پکاریں گے اور ایک عالمگیر انقلاب کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی اور مہدی برحق (عج) ظہور فرمائیں گے اور یہ دین تمام ادیان پر غالب آئے گا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَ الرُّہۡبَانِ لَیَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اے ایمان والو! (اہل کتاب کے) بہت سے علماء اور راہب ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔

34۔ حضرت عثمان کے عہد حکومت میں جب قرآن ایک ہی قرائت کے مطابق لکھا جا رہا تھا تو حکومت کی یہ کوشش تھی کہ وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ میں واؤ نہ لکھی جائے، لیکن حکومت کے اس مؤقف کے خلاف مزاحمت کی گئی اور واؤ لکھی گئی۔ ( الدر المنثور 3: 419)

یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکۡوٰی بِہَا جِبَاہُہُمۡ وَ جُنُوۡبُہُمۡ وَ ظُہُوۡرُہُمۡ ؕ ہٰذَا مَا کَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡنِزُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ جس روز وہ مال آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اسی سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا، لہٰذا اب اسے چکھو جسے تم جمع کیا کرتے تھے۔

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۬ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِیۡہِنَّ اَنۡفُسَکُمۡ وَ قَاتِلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ کَآفَّۃً ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ کتاب خدا میں مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک یقینا بارہ مہینے ہے جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں، یہی مستحکم دین ہے، لہٰذا ان چار مہینوں میں تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اور تم، سب مشرکین سے لڑو جیسا کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے۔

اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الۡکُفۡرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُحِلُّوۡنَہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوۡنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِـُٔوۡا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ؕ زُیِّنَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ اَعۡمَالِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿٪۳۷﴾

۳۷۔(حرمت کے مہینوں میں) تقدیم و تاخیر بے شک کفر میں اضافہ کرتا ہے جس سے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے وہ کسی سال ایک مہینے کو حلال اور کسی سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ وہ مقدار بھی پوری کر لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور ساتھ ہی خدا کے حرام کو حلال بھی کر لیں، ان کے برے اعمال انہیں بھلے کر کے دکھائے جاتے ہیں اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا۔

36۔37۔ اللہ کی کتاب تکوین میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ یعنی جب زمین سورج کے گرد ایک چکر پورا کر لیتی ہے تو چاند زمین کے گرد بارہ چکر لگا لیتا ہے۔ یہ ایک قدرتی اور عالمگیر جنتری ہے۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے محرم، رجب، ذی القعدہ اور ذی الحجہ حرمت والے مہینے ہیں۔ ان میں قتل و غارت اور جنگ و خون ریزی حرام ہے۔ عرب اگرچہ بنیادی طور پر حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ و خونریزی کو حرام سمجھتے تھے لیکن وہ ان چار مہینوں کو کبھی اپنی خواہشات کے مطابق بدل دیتے تھے۔ مثلاً محرم میں جنگ کرنی ہو تو محرم کو ربیع الاول اور ربیع الاول کو محرم فرض کر لیتے۔ یوں حرمت والے مہینے حلال قرار دے کر جنگ کرتے تھے۔ اس عمل کو وہ نسئ کہتے تھے۔ ان کا یہ عمل اللہ کے مقرر کردہ قوانین میں دخل اندازی تھا، لہذا ان آیات میں اسے کفر قرار دے کر ممنوع قرار دیا، البتہ اگر مسلمانوں پر جنگ مسلط کی گئی تو دفاع جائز ہو گا۔ ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کے قوانین میں تبدیلی اور دخل اندازی کفر ہے۔ جب یہ جرم و گناہ بھلا دکھائی دے تو اللہ ایسے لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَکُمۡ اِذَا قِیۡلَ لَکُمُ انۡفِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اثَّاقَلۡتُمۡ اِلَی الۡاَرۡضِ ؕ اَرَضِیۡتُمۡ بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیۡلٌ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کی جگہ دنیاوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہو؟ دنیاوی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

38۔ 9 ہجری میں جب آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غزوہ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبر ملی کہ روم کی فوجیں تبوک میں جمع ہو رہی ہیں۔ تبوک مدینہ کے شمال میں شام کی سرحد پر ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے 610 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اس مرتبہ لشکر اسلام کو ایک ایسے منظم شاہی فوج کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے جو اس زمانے کی بڑی طاقت شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ تیس ہزار کا لشکر لے کر نکلے۔

اِلَّا تَنۡفِرُوۡا یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ۬ۙ وَّ یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ وَ لَا تَضُرُّوۡہُ شَیۡئًا ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کرے گا اور تم اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔

اس مرتبہ اس جنگ کے لیے نکلنے میں چند ایک دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ مدینہ سے تبوک کی مسافت کافی دور تھی۔ موسم بھی سخت گرم تھا۔ فصل پکنے اور کاٹنے کا وقت بھی آگیا تھا اور پھر اس زمانے کی بڑی طاقت کے ساتھ لڑنا تھا۔ یہ ساری باتیں مسلمانوں کے ایمان کے وزن کو تولنے کے لیے کافی تھیں۔ چنانچہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے اواخر میں ایمان و ایقان کی کس منزل پر فائز تھے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے جہاد کا اعلان عام ہو رہا ہے لیکن لوگ زمین سے چمٹ رہے ہیں۔ ان کے لیے دنیاوی زندگی اور مال و متاع رکاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں جہاد سے زیادہ عزیز ہے۔

39۔ یہ سنت الٰہی ہے کہ وہ قوم کبھی زندہ نہیں رہ سکتی جو اپنا دفاع کرنا نہیں جانتی اور اپنے امام کے پکارنے پر زمین سے چمٹ جاتی ہے اور اپنے رہبر کی نافرمانی کرتی ہے۔ وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَکُمۡ (محمد:38) اگر تم نے منہ موڑ لیا تو اللہ تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کرے گا پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔ کیونکہ دشمن سے خوف کھانا اور اس کے سامنے ہتھیار ڈالنا اپنے وجود کی نفی ہے۔

اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۴۰﴾

۴۰۔ اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو (جان لو کہ) اللہ نے اس وقت ان کی مدد کی جب کفار نے انہیں نکالا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے وہ دو میں کا دوسرا تھا جب وہ اپنے ساتھی سے کہ رہا تھا رنج نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے ان پر اپنا سکون نازل فرمایا اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد کی جو تمہیں نظر نہ آتے تھے اور یوں اس نے کافروں کا کلمہ نیچا کر دیا اور اللہ کا کلمہ تو سب سے بالاتر ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

40۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پر لبیک نہ کہنے والوں سے اللہ تہدید آمیز لہجے میں فرما رہا ہے کہ اگر تم نے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد نہ کی تو اللہ ان کی مدد کرے گا۔ جس نے اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس وقت مدد کی جب وہ دو میں کا دوسرا تھا اور کوئی تیسرا آدمی ان کے ساتھ نہ تھا اور حالت بھی یہ تھی کہ وہ اپنے تنہا ساتھی (حضرت ابوبکر) سے فرما رہے تھے: حزن نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

سید قطب اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: اللہ انہیں تاریخ کی ایک مثال دے رہا ہے جسے وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان کے بغیر کیسے مدد کی۔