بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ کہدیجئے: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا: ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے

1۔ یہ واقعہ بعض کے نزدیک حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طائف سے واپسی پر نخلہ کے مقام پر پیش آیا اور بعض کے نزدیک آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بازار عکاظ تشریف لے جا رہے تھے تو راستے میں جنوں کا ایک گروہ گزر رہا تھا، انہوں نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قرآن پڑھتے سنا تو ایمان لے آئے۔ جن ایک پوشیدہ مخلوق ہے، جسے انسانی حواس درک نہیں کر سکتے، لیکن وہ انسانوں کی طرح مکلف ہیں۔ ان میں مومن کافر اور مشرک ہوتے ہیں۔ بعض لوگ جنات کو انسانی اوہام کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور بعض قرآنی تعبیرات کی تاویل و توجیہ کرتے ہیں کہ شیطان و ابلیس سے مراد خود انسان کے اندر موجود منفی طاقت اور خواہشات ہیں، جبکہ یہ باتیں بذات خود اوہام کے سوا کسی دلیل و سند پر مبنی نہیں ہیں۔ قرآن سننے کے بعد جنوں کے مؤقف میں جو تبدیلیاں آئیں، بعد کی آیات میں ان کا ذکر ہے: ٭انہیں علم ہوا کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے۔ ٭نادان جنوں کے باطل نظریات کا علم ہوا۔ ٭ان کو یہ بھی علم ہوا کہ انسان اور جن اللہ کے بارے میں جھوٹ بول سکتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کر سکتے ہیں۔

یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ وَ لَنۡ نُّشۡرِکَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ جو راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم کسی کو ہرگز اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے۔

وَّ اَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّ لَا وَلَدًا ۙ﴿۳﴾

۳۔ اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بلند ہے اس نے نہ کسی کو زوجہ بنایا اور نہ اولاد،

وَّ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوۡلُ سَفِیۡہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًا ۙ﴿۴﴾

۴۔ اور یہ کہ ہمارے کم عقل لوگ اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کرتے ہیں۔

4۔ اس بات کے بے بنیاد ہونے کا بھی علم ہو گیا کہ عرب جاہلیت میں لوگ جنوں کی پناہ مانگتے تھے۔

وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ تَقُوۡلَ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۙ﴿۵﴾

۵۔ اور یہ کہ ہمارا خیال تھا کہ انسان اور جن کبھی بھی اللہ کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔

وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الۡاِنۡسِ یَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الۡجِنِّ فَزَادُوۡہُمۡ رَہَقًا ۙ﴿۶﴾

۶۔ اور یہ کہ بعض انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس نے جنات کی سرکشی مزید بڑھا دی ،

وَّ اَنَّہُمۡ ظَنُّوۡا کَمَا ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ لَّنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ اَحَدًا ۙ﴿۷﴾

۷۔ اور یہ کہ انسانوں نے بھی تم جنات کی طرح گمان کر لیا تھا کہ اللہ کسی کو دوبارہ نہیں اٹھائے گا۔

وَّ اَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰہَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا وَّ شُہُبًا ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہرے داروں اور شہابوں سے بھرا ہوا پایا۔

وَّ اَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور یہ کہ پہلے ہم سننے کے لیے آسمان کے مقامات میں بیٹھا کرتے تھے، اب اگر کوئی سننا چاہتا ہے تو وہ ایک شعلے کو اپنی کمین میں پاتا ہے۔

8۔9 ہم پہلے آسمان کی خبریں سننے کے لیے آسمان میں بیٹھ جاتے تھے، اب شہاب ثاقب ہماری گھات میں ہیں، لہٰذا آسمان کی خبریں نہیں سن سکتے۔ اس سے واضح ہوا کہ اگر شہاب ثاقب سے مراد یہی آسمانی پتھروں والی بارش ہوتی تو لازم آتا ہے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے پہلے آسمان پر ایسے شہاب ثاقب موجود نہ ہوں، جبکہ جن چیزوں کو ہم شہاب ثاقب سمجھ رہے ہیں، وہ شروع سے موجود تھے۔ لہٰذا قرآن کا اشارہ ان آسمانی پتھروں کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ شہاب ثاقب آسمانی نجوم سے نکلنے والے شہاب ہو سکتے ہیں، جن کی حقیقت ہم پر واضح نہیں ہے۔ البتہ روایات میں آیا ہے کہ زمان جاہلیت میں بھی شہاب ہوتے تھے، لیکن رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے بعد ان شہابوں نے راستہ روکنا شروع کیا یا ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ اس پر مُلِئَتۡ (بھرا ہوا) کو قرینہ کہتے ہیں۔ (زبدۃ التفاسیر)

وَّ اَنَّا لَا نَدۡرِیۡۤ اَشَرٌّ اُرِیۡدَ بِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اَمۡ اَرَادَ بِہِمۡ رَبُّہُمۡ رَشَدًا ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور یہ کہ ہمیں نہیں معلوم کہ (اس سے) اہل زمین کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے لیے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔

10۔ ہم ارادہ الٰہی سے باخبر نہیں ہیں کہ وہ اہل ارض کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے۔ آسمان پر پہرہ بٹھانے کا مقصد ہمیں معلوم نہیں ہے۔