آیات 8 - 9
 

وَّ اَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰہَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا وَّ شُہُبًا ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہرے داروں اور شہابوں سے بھرا ہوا پایا۔

وَّ اَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ۙ﴿۹﴾

۹۔ اور یہ کہ پہلے ہم سننے کے لیے آسمان کے مقامات میں بیٹھا کرتے تھے، اب اگر کوئی سننا چاہتا ہے تو وہ ایک شعلے کو اپنی کمین میں پاتا ہے۔

تفسیر آیات

ہم اس سے پہلے آسمان کی خبریں سننے کے لیے آسمان میں بیٹھ جاتے تھے۔ اب شہاب ثاقب ہماری گھات میں ہیں۔ لہٰذا اب ہم آسمان کی خبریں نہیں سنا سکتے۔

اس سے واضح ہوا کہ شہاب ثاقب سے مراد یہی آسمانی پتھروں والے شہاب نہیں ہیں۔ یہ شہاب تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھے۔

دیگر قرآنی آیات کے شواہد کے مطابق آسمان اول کے ستاروں سے نکلنے والی شعاعوں سے شیطانوں کو بھگایا جاتا ہے:

وَ لَقَدۡ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ جَعَلۡنٰہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیٰطِیۡنِ۔۔۔۔

ہم نے نزدیک ترین آسمان کو چراغوں سے سجایا اور انہیں شیطانوں کے مار بھگانے کا ذریعہ بنایا۔

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ملک آیت ۵۔

البتہ بعض روایات میں آیا ہے کہ زمان جاہلیت میں بھی شہاب ہوتے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعد ان شہابوں نے راستہ روکنا شروع کیا یا ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس آیت میں موجود لفظ مُلِئَتۡ (بھرا ہوا) کو اس مطلب پر قرینہ قرار دیا جاتا ہے جب کہ وہ پہلے ایسی جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے جہاں شہاب نہیں ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

فان الشیطان کانت تقعد مقاعد استراق السمع اذ ذلک و ھی لا تحجب و لا ترجم بالنجوم۔۔۔۔ (بحارالانوار ۶۰: ۷۶)

اس وقت شیاطین چوری سے سننے کے لیے بعض مقامات پر بیٹھا کرتے تھے کیونکہ اس وقت رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی تھی اور ستاروں سے مارے نہیں جاتے تھے۔


آیات 8 - 9