وَّ اَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوۡنَ وَ مِنَّا دُوۡنَ ذٰلِکَ ؕ کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ اور یہ کہ ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ ہم میں دوسری طرح کے ہیں اور ہم مختلف مذاہب میں بٹے ہوئے تھے۔

وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ نُّعۡجِزَ اللّٰہَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَنۡ نُّعۡجِزَہٗ ہَرَبًا ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور یہ کہ ہم نے یقین کر لیا ہے کہ ہم زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور نہ بھاگ کر اس کو ہرا سکتے ہیں۔

12۔ ظَنّ بمعنی یقین کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ ہم نہ تو آسمانوں کا راستہ نکالنے کے لیے اللہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں، نہ ہی اللہ کی مملکت سے فرار ہو سکتے ہیں۔

وَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعۡنَا الۡہُدٰۤی اٰمَنَّا بِہٖ ؕ فَمَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِرَبِّہٖ فَلَا یَخَافُ بَخۡسًا وَّ لَا رَہَقًا ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور یہ کہ جب ہم نے ہدایت (کی بات) سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے، پس جو شخص بھی اپنے رب پر ایمان لاتا ہے اسے نہ تو نقصان کا خوف ہے اور نہ ظلم کا۔

13۔ ہم جنات نے بھی اس راز کا انکشاف کر لیا کہ ایمان کے بعد نہ کسی خسارے کا خوف رہتا ہے، نہ کسی مذلت کا۔

وَّ اَنَّا مِنَّا الۡمُسۡلِمُوۡنَ وَ مِنَّا الۡقٰسِطُوۡنَ ؕ فَمَنۡ اَسۡلَمَ فَاُولٰٓئِکَ تَحَرَّوۡا رَشَدًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور یہ کہ ہم میں سے کچھ مسلمان ہیں اور کچھ ہم میں منحرف ہیں، پس جنہوں نے اسلام اختیار کیا انہوں نے راہ راست اختیار کی۔

وَ اَمَّا الۡقٰسِطُوۡنَ فَکَانُوۡا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اور جو منحرف ہو گئے وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔

وَّ اَنۡ لَّوِ اسۡتَقَامُوۡا عَلَی الطَّرِیۡقَۃِ لَاَسۡقَیۡنٰہُمۡ مَّآءً غَدَقًا ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ اور (انہیں یہ بھی سمجھا دیں کہ) اگر یہ لوگ اسی راہ پر ثابت قدم رہتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے،

16۔ رخ کلام مشرکین کی طرف ہو گیا کہ اگر وہ راہ راست پر آ جاتے تو ہم ان کو خشک سالی اور قحط سے نکال کر خوشحالی کی آزمائش میں ڈالتے۔

لِّنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ یُّعۡرِضۡ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّہٖ یَسۡلُکۡہُ عَذَابًا صَعَدًا ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ تاکہ اس میں ہم ان کی آزمائش کریں اور جو شخص اپنے رب کے ذکر سے منہ پھیرے گا وہ اسے سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔

وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اور یہ کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔

18۔ ائمہ علیہم السلام کی احادیث کے مطابق الۡمَسٰجِدَ سے مراد اعضائے سجدہ ہیں کہ ان اعضاء پر غیر اللہ کے لیے سجدہ نہ کرو۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: السُّجُودُ عَلَی سَبْعَۃِ اَعْظُمِ الْجَبْھَۃِ وَ الْیَدَیْنِ وَ الرُّکْبَتَیْنِ وَ الْاِبْہَامَیْنِ وَ تُرْغِمُ بَاَنْفِکَ اِرْغَاماً فَاَمَّا الْفَرْضُ فَھَذِہِ السَّبْعَۃُ وَ اَمَّا الْاِرْغَامُ بَالْاَنْفِ فَسُنَّۃٌ مِنَ النَّبِیِّ ص (التہذیب 2: 99)۔ سجدہ سات اعضاء پر ہونا چاہیے۔ پیشانی، دونوں ہاتھوں، دونوں گٹھنوں اور دونوں پاؤں کے انگوٹھوں پر۔ ناک زمین پر لگانا ہو گی۔ یہ سات واجب ہیں۔ ناک زمین پر لگانا سنت نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے۔

حنفی کے نزدیک صرف پیشانی کا سجدہ واجب ہے۔ بعض ناک کو بھی شامل کرتے ہیں (رشحات:37)

حنبلی اور مالکی کے نزدیک سات اعضا پر سجدہ واجب ہے۔ ناک کا زمین پر لگانا مستحب ہے۔ شافعی ایک قول میں صرف پیشانی کا سجدہ صحیح سمجھتے ہیں۔ اسلامی مصادر سے جو ثابت ہوتا ہے، وہ سات اعضاء پر سجدہ واجب ہے۔ ناک کا زمین پر لگانا مستحب ہے۔ صحیح بخاری کتاب الاذان میں ہے:رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: امرنا ان نسجد علی سبعۃ اعظم ۔ ہمیں حکم ملا ہے کہ سات اعضا پر سجدہ کریں۔ اس کے بعد پیشانی دونوں ہاتھ دونوں گٹھنوں اور دونوں پاؤں کا ذکر ہے۔

ان احادیث میں سات اعضاء کے لیے تین مختلف تعبیریں ہیں: سبعۃ اعظم۔ سبعۃ اطراف۔ سبعۃ آراب ۔ ملاحظہ ہو صحیح مسلم باب اعضاء السجود۔ ترمذی باب ما جاء فی السجود۔ ان میں ناک کا ذکر نہ ہونا دلیل ہے یہ مستحب ہے، فرض نہیں ہے۔

خاک پر سجدہ: فقہ جعفری کے مطابق سجدہ، خاک پر ہو سکتا ہے یا خاک سے اگنے والی اشیاء پر، جو کھانے اور لباس کی چیزوں اور معادن میں سے نہ ہوں۔

1۔ اس پر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عمل شاہد ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مٹی پر سجدہ فرمایا کرتے تھے۔ صحیح بخاری کتاب الاذان میں ابو سعید خدری راوی ہیں: کان یسجد فی الماء و الطین حتی رایت اثر الطین فی جبھۃ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آب و گِل پر سجدہ کرتے تھے کہ میں نے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیشانی کو گل آلود دیکھا۔ یہ بارش کے دنوں کی بات ہے جب مسجد نبوی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی چھت ٹپک رہی تھی۔

2۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الخُمرۃ پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ خمرۃ کھجور کی چھال سے بنی ہوئی ہتھیلی کے برابر چھوٹی چٹائی کو کہتے ہیں۔ تلخیص الصحاح میں اور محمد طاہر نے مجمع بحار صفحہ 377 میں کہا ہے: الخُمرۃ وہی ہے جس پر آج کل شیعہ سجدہ کرتے ہیں۔ صحیح بخاری کتاب الصلوۃ میں آیا ہے: کان رسول اللہ یصلی علی الخُمرۃ ۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خمرۃ پر سجدہ کیا کرتے تھے نیز ملاحظہ ہو صحیح مسلم باب الصلوۃ علی الخُمرۃ ۔

3۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سجدہ کے بارے میں یہ فرمان ہے کہ تَرِّبْ وَجْھَکَ اپنے چہرے کو خاک آلود کرو۔ ملاحظہ ہو صحیح ترمذی کتاب الصلوۃ۔ مسند احمد باب حدیث ام سلمہ۔

سنت نبوی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مطابق ہر خاک پر سجدہ کرنا بہتر ہے تو جس شہید نے اس سجدے کی خاطر جان دی ہو، اس کی خاک پر سجدہ کرنا یقینا افضل ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: اِنَّ السُّجُودَ عَلَی تُرْبَۃِ اَبِی عَبْدِ اللہِ علیہ السلام یَخْرِقُ الْحُجُبَ السَّبْعَ ۔ (الوسائل5: 311 باب استحباب السجود۔۔۔) حضرت امام حسین علیہ السلام کی تربت پر سجدہ کرنا (قبولیت کے لیے مانع) سات پردوں کو ہٹا دیتا ہے۔

وَّ اَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبۡدُ اللّٰہِ یَدۡعُوۡہُ کَادُوۡا یَکُوۡنُوۡنَ عَلَیۡہِ لِبَدًا ﴿ؕ٪۱۹﴾

۱۹۔ اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اسے پکارنے کے لیے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ ہجوم اس پر ٹوٹ پڑے۔

19۔ مشرکین مکہ کی شدت عداوت کا ذکر ہے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تو وہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد بھیڑ لگاتے اور اذیت دیتے تھے۔

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَدۡعُوۡا رَبِّیۡ وَ لَاۤ اُشۡرِکُ بِہٖۤ اَحَدًا﴿۲۰﴾

۲۰۔ کہدیجئے: میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔