بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرۡ قَوۡمَکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱﴾

۱۔ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کی تنبیہ کریں قبل اس کے کہ ان پر دردناک عذاب آ جائے۔

قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ۙ﴿۲﴾

۲۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! میں تمہیں واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں،

اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾

۳۔ کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو کہ،

3۔ حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت تین اہم ستونوں پر مشتمل تھی :i اعۡبُدُوا اللّٰہَ اللہ کی بندگی کرو۔ ii وَ اتَّقُوۡہُ خوف خدا کرو۔ یعنی اللہ کے عدل سے خوف اور غضب الٰہی سے بچاؤ۔ iii وَ اَطِیۡعُوۡنِ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت۔

یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرۡکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ ۘ لَوۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت دے گا، اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آ جاتا ہے تو مؤخر نہیں ہوتا، کاش! تم جانتے ہوتے۔

4۔ یعنی اگر اللہ کی بندگی اور تقویٰ اختیار کرو اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو تو اللہ تمہیں حتمی اجل تک مہلت دے گا۔ دوسری صورت میں تمہیں مہلت نہیں ملے گی۔

یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ : ایمان کی وجہ سے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، البتہ آئندہ گناہوں کے جوابدہ ہوں گے۔ اس لیے ذُنُوۡبِکُمۡ نہیں کہا، مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ ْ کہا ہے۔ تمہارے کچھ گناہ معاف ہو جائیں گے۔

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ دَعَوۡتُ قَوۡمِیۡ لَیۡلًا وَّ نَہَارًا ۙ﴿۵﴾

۵۔ نوح نے کہا: رب! میں اپنی قوم کو رات دن دعوت دیتا رہا،

فَلَمۡ یَزِدۡہُمۡ دُعَآءِیۡۤ اِلَّا فِرَارًا﴿۶﴾

۶۔ لیکن میری دعوت نے ان کے گریز میں اضافہ ہی کیا،

6۔ جو ذہن قبول حق کی اہلیت نہ رکھتا ہو، اگر اسے حق پیش کیا جائے تو اس کی حق سے نفرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ شورہ زار زمین میں بیج ڈالنے سے اس کی شورہ زاری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل آیت 82 میں فرمایا: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا ۔ اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، لیکن ظالموں کے لیے تو صرف خسارے میں اضافہ کرتی ہے۔ اس طرح بیک وقت مومنین کے لیے شفا و رحمت اور ظالموں کے لیے گھاٹا ہے۔

وَ اِنِّیۡ کُلَّمَا دَعَوۡتُہُمۡ لِتَغۡفِرَ لَہُمۡ جَعَلُوۡۤا اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَ اسۡتَغۡشَوۡا ثِیَابَہُمۡ وَ اَصَرُّوۡا وَ اسۡتَکۡبَرُوا اسۡتِکۡبَارًا ۚ﴿۷﴾

۷۔ اور میں نے جب بھی انہیں بلایا تاکہ تو ان کی مغفرت کرے تو انہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے (منہ) ڈھانک لیے اور اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔

ثُمَّ اِنِّیۡ دَعَوۡتُہُمۡ جِہَارًا ۙ﴿۸﴾

۸۔ پھر میں نے انہیں بلند آواز سے بلایا۔

ثُمَّ اِنِّیۡۤ اَعۡلَنۡتُ لَہُمۡ وَ اَسۡرَرۡتُ لَہُمۡ اِسۡرَارًا ۙ﴿۹﴾

۹۔ پھر میں نے انہیں علانیہ طور پر اور نہایت خفیہ طور پر بھی دعوت دی،

فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ہے۔