آیت 4
 

یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرۡکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ ۘ لَوۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت دے گا، اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آ جاتا ہے تو مؤخر نہیں ہوتا، کاش! تم جانتے ہوتے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ: مذکورہ تعلیمات پر عمل کرنے کے دو اہم نتائج تمہارے سامنے آجائیں گے: ایک تو یہ کہ تمہارے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے چونکہ ایمان اور عمل صالح سے گزشتہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ آئندہ کے گناہوں کا حساب دینا ہو گا اس لیے ذُنُوۡبِکُمۡ نہیں فرمایا، مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ فرمایا کہ تمہارے کچھ گناہ معاف ہو جائیں گے:

قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۳۸)

کفار سے کہدیجیے کہ اگر وہ باز آجائیں تو جو کچھ ان سے پہلے سرزد ہوا ہے اسے معاف کر دیا جائے گا۔

دوسرے یہ کہ تمہیں اپنی حتمی موت تک مہلت مل جائے گی۔ اَجَلٍ مُّسَمًّى اس مقررہ وقت کو کہتے ہیں جس میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہ ہو گی۔ اس کے علاوہ ایک اجل انسان کے اپنے اعمال کے نتیجے میں مقرر ہوتی ہے جس میں تبدیلی آسکتی ہے۔ اس طرح اجل دو طرح کی ہوتی ہے۔

مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام آیت ۲۔

۲۔ اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآءَ: اور جب حتمی اجل آجائے گی تو اس میں کسی قسم کی تاخیر اور مہلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ غیر حتمی اجل میں یہ گنجائش موجود ہے۔ اس طرح قوم نوح اگر ایمان لے آئے تو مثلاً ہزار سال زندہ رہے گی اور اگر ایمان نہ لائے تو نو سو سال میں ہلاک ہو جائے گی۔


آیت 4