آیات 10 - 12
 

فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ہے۔

یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا،

وَّ یُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲۔ وہ اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔

تشریح کلمات

مِّدۡرَارًا:

( م د ر ) موسلادھار بارش کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

پھر حضرت نوح علیہ السلام نے لوگوں کو طمع و امید دلائی کہ اگر تم ایمان لے آؤ تو تمہاری زندگی میں تمہیں آسائشیں میسر آجائیں گی۔

قرآن مجید میں دیگر مقامات پر بھی اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے اثرات صرف آخرت سے مختص نہیں ہیں بلکہ دنیوی زندگی پربھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:

وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنۡ کَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۹۶﴾ (۷ اعراف: ۹۶)

اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔

اس آیت میں استغفار کو رزق کی فراوانی کا سبب قرار دیا ہے۔


آیات 10 - 12