بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

حٰمٓ ۚ﴿ۛ۱﴾

۱۔حا، میم۔

وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾

۲۔ اس روشن کتاب کی قسم ۔

اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾

۳۔ ہم نے اس (قرآن) کو عربی قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔

3۔ تاکہ تم مخاطبین اول سمجھ سکو۔ چونکہ قرآن کے مخاطبین اول عرب لوگ ہیں۔ پہلے مرحلے میں انہیں سمجھانا مقصود ہے۔ مخاطبین اول پر واجب ہے کہ وہ اس قرآنی پیغام کو دوسری قوموں تک پہنچائیں: وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ۔ (انعام: 19) اُنۡذِرَکُمۡ مخاطبین اول اور مَنۡۢ بَلَغَ دوسری قومیں ہیں۔

وَ اِنَّہٗ فِیۡۤ اُمِّ الۡکِتٰبِ لَدَیۡنَا لَعَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ؕ﴿۴﴾

۴۔ اور بلاشبہ یہ مرکزی کتاب (لوح محفوظ) میں ہمارے پاس برتر، پر حکمت ہے۔

اُمِّ الۡکِتٰبِ سے مراد اکثر کے نزدیک لوح محفوظ ہے۔ چنانچہ سورہ بروج آیات21۔ 22میں فرمایا: بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿﴾ فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ بلکہ یہ وہ قرآن مجید ہے جو لوح محفوظ میں ہے۔ آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے: یہ قرآن ہمارے نزدیک لوح محفوظ میں بلند پایہ اور حکمت آمیز ہے۔ یعنی لوح محفوظ میں جہاں کل کائنات کا دستور ثبت ہے، وہاں قرآن کا درجہ بلند ہے۔ کیونکہ اس میں انسان کی سعادت کے لیے ایک جامع دستور حیات موجود ہے۔

اَفَنَضۡرِبُ عَنۡکُمُ الذِّکۡرَ صَفۡحًا اَنۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا مُّسۡرِفِیۡنَ﴿۵﴾

۵۔ کیا ہم اس ذکر (قرآن) کو محض اس لیے تم سے پھیر دیں کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو؟

وَ کَمۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ نَّبِیٍّ فِی الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اور پہلے لوگوں میں ہم نے بہت سے نبی بھیجے ہیں۔

وَ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۷﴾

۷۔ اور کوئی نبی ان کے پاس نہیں آتا تھا مگر یہ کہ یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔

فَاَہۡلَکۡنَاۤ اَشَدَّ مِنۡہُمۡ بَطۡشًا وَّ مَضٰی مَثَلُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ پس ہم نے ان سے زیادہ طاقتوروں کو ہلاک کر دیا اور پچھلی قوموں کی سنت نافذ ہو گئی۔

8۔ اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے: ”پچھلی قوموں کی مثال گزر چکی ہے۔“ لیکن قرآنی اصطلاح میں کا لفظ نافذ ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ خَلَقَہُنَّ الۡعَزِیۡزُ الۡعَلِیۡمُ ﴿ۙ۹﴾

۹۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں: آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یہ ضرور کہیں گے: بڑے غالب آنے والے، علیم نے انہیں پیدا کیا ہے،

9۔ قرآن کریم میں اس بات کا مکرر ذکر آیا ہے کہ مشرکین اللہ ہی کو آسمانوں اور زمین کا خالق سمجھتے تھے اور اللہ کو عزیز و علیم بھی سمجھتے تھے۔ مشرکین کے اس اقرار کے بعد آیات 10 تا 13 میں تخلیق کے ان مراحل کا ذکر فرمایا جو تدبیر سے مربوط ہیں۔ آیات قرآنی کے ساتھ ہم نے بھی اس بات کا مکرر ذکر کیا کہ تخلیق اور تدبیر میں تفریق مشرکوں کا مذہب ہے، جسے قرآن نے متعدد آیات میں رد فرمایا ہے۔

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ مَہۡدًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ فِیۡہَا سُبُلًا لَّعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿ۚ۱۰﴾

۱۰۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے تاکہ تم راہ پا سکو۔

10۔ زمین کو اس آیت میں گہوارے سے تعبیر فرمایا گیا ہے، جس میں بچے کو ہر قسم کی آسائش فراہم ہوتی ہے۔ فضائے عالم زندگی کے لیے نہایت ناسازگار ہے۔ اس ناسازگار فضا میں معلق زمین کی داخلی صورت یہ ہے کہ اس کا شکم آتش سے پر ہے اور بیرونی صورت یہ ہے کہ جس فضا میں یہ کرہ سال بھر کی مسافت طے کرتا ہے، وہ ساری فضا زندگی کے لیے نامساعد ہے۔ اس ناسازگار فضا میں کرﮤ ارض کو زندگی کا گہوارہ بنانے کے لیے قدرت کو چار دن لگے تھے۔