آیت 5
 

اَفَنَضۡرِبُ عَنۡکُمُ الذِّکۡرَ صَفۡحًا اَنۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا مُّسۡرِفِیۡنَ﴿۵﴾

۵۔ کیا ہم اس ذکر (قرآن) کو محض اس لیے تم سے پھیر دیں کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو؟

تفسیر آیات

قوموں کی طرف سے پذیرائی نہ ملنے پر اللہ تعالیٰ ہدایت کا سلسلہ بند نہیں فرماتا۔ اس کی چند ایک وجوہ ہیں:

۱۔ ہدایت کے سلسلہ انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرنا اتمام حجت کے لیے ضروری ہے۔ حجت پوری کرنے سے پہلے صرف علم خدا کی بنیاد پر انہیں عذاب کا مستحق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

۲۔ پوری قوم میں ایک شخص نے بھی ہدایت حاصل کرنی ہو تو بھی اللہ ہدایت کا سلسلہ بند نہیں فرماتا۔ چنانچہ قوم لوط کے بارے میں فرمایا:

فَمَا وَجَدۡنَا فِیۡہَا غَیۡرَ بَیۡتٍ مِّنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (۵۱ ذاریات: ۳۶)

وہاں ہم نے ایک گھر کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

۳۔ موجودہ نسل نے اگرچہ پذیرائی نہیں دی لیکن آنے والی نسلوں کے لیے پیغام ہدایت پہنچایا جاتا ہے۔ اس بات کی بہت سی مثالیں ہیں کہ بعض انبیاء علیہم السلام کے معاصر لوگ ایمان نہیں لائے مگر آنے والی نسلیں مسلمان ہو گئیں۔

۴۔ منکرین کو ملنے والی سزا سے آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت وجود میں آتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ اکثر لوگوں کے منکر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ ہدایت کا سلسلہ بند نہیں کرتا۔


آیت 5