آیت 10
 

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ مَہۡدًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ فِیۡہَا سُبُلًا لَّعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿ۚ۱۰﴾

۱۰۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے تاکہ تم راہ پا سکو۔

تفسیر آیات

۱۔ اللہ نے زمین کو صرف خلق نہیں فرمایا بلکہ اسے گہوارہ بھی بنایا۔ یعنی اسے اس طرح خلق کیا کہ انسان کے لیے گہوارے کا کام دے۔

واضح رہے کائنات کی فضا زندگی کے لیے سازگار نہیں ہے۔ اس ناسازگار فضا میں زمین کو زندگی کے لیے سازگار بنانے میں اللہ تعالیٰ کے چار دن لگے ہیں:

وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ (۴۱ فصلت: ۱۰)

اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکات رکھ دیں اور اس میں چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے برابر سامان خوراک مقرر کیا۔

زمین کو اس آیت میں گہوارے سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس میں بچے کو ہر قسم کی آسائش فراہم ہوتی ہے۔ فضائے عالم زندگی کے لیے نہایت ناسازگار ہے۔ اس ناسازگار فضا میں معلق زمین کی داخلی صورت یہ ہے کہ اس کا شکم آتش سے پر ہے اور بیرونی صورت یہ ہے کہ جس فضا میں یہ کرۂ سال بھر کی مسافت طے کرتا ہے وہ ساری فضا زندگی کے لیے نامساعد ہے۔

چنانچہ کرۂ ارض کو گہوارہ بننے میں اس کرہ کے حجم، پانی کی مقدار، انسان، حیوانات اور نباتات میں حیات بخش ہوا کے تبادلے، اجرام میں قوت جاذبہ کا تعادل، زمین کے گرد حفاظتی حصار، آسمان سے آنے والے شعاعوں کا کردار وغیرہ وغیرہ ہزاروں چیزوں کو دخل ہے۔

۲۔ وَّ جَعَلَ لَکُمۡ فِیۡہَا سُبُلًا: کرۂ ارض کے مختلف مناطق کے درمیان پہاڑ حائل ہیں۔ ان کا عبور کرنا کبھی مشکل اور کبھی ناممکن ہوتا ہے۔ قدرت نے پہاڑوں کے درمیان دروں کو پیدا کر کے انسان اور پانی کے لیے راہ ہموار فرمائی، جس سے یہاں زندگی گزارنے والوں کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ نامساعد فضائے بیکراں میں زندگی کے وسائل کو فراہمی تخلیق کے ساتھ تدبیر کا ثبوت ہے۔


آیت 10