بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

حٰمٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ حا، میم ۔

عٓسٓقٓ﴿۲﴾

۲۔ عین ، سین ، قاف۔

1۔ 2 یہ حروف مقطعات پانچ حروف پر مشتمل ہیں اور دو آیتیں شمار ہوتے ہیں، جبکہ کٓہٰیٰعٓصٓ بھی پانچ حروف پر مشتمل ہے، صرف ایک آیت شمار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حروف مقطعات کے اندر مضامین ہیں، جن کی وجہ سے یہ مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں۔

کَذٰلِکَ یُوۡحِیۡۤ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۙ اللّٰہُ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۳﴾

۳۔ اسی طرح آپ کی طرف اور آپ سے پہلوں کی طرف بڑا غالب آنے والا، حکمت والا اللہ وحی بھیجتا رہا ہے۔

لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ﴿۴﴾

۴۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کی ملکیت ہے اور وہ عالی مرتبہ، عظیم ہے۔

تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡ فَوۡقِہِنَّ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۵﴾

۵۔ قریب ہے کہ آسمان ان کے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اہل زمین کے لیے استغفار کرتے ہیں، آگاہ رہو! اللہ ہی بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

5۔ شان خداوندی میں مشرکین کی جسارت ایسی ہے جس سے آسمان پھٹ جائے، لیکن اس آسمان کے نیچے اہل ایمان بھی رہتے ہیں، جن کے لیے فرشتے دعا کر رہے ہوتے ہیں۔ ان صاحبان ایمان کے وجود سے زمین والوں کو امان حاصل ہے۔ لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ سے مراد مومنین ہی ہو سکتے ہیں۔ مشرکین کے لیے فرشتے طلب مغفرت نہیں کر سکتے۔

وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہُ حَفِیۡظٌ عَلَیۡہِمۡ ۫ۖ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِوَکِیۡلٍ﴿۶﴾

۶۔ اور جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو سرپرست بنایا ہے اللہ ہی ان (کے اعمال) پر نگہبان ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا وَ تُنۡذِرَ یَوۡمَ الۡجَمۡعِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَرِیۡقٌ فِی الۡجَنَّۃِ وَ فَرِیۡقٌ فِی السَّعِیۡرِ﴿۷﴾

۷۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن بھیجا ہے تاکہ آپ مکہ اور اس کے گرد و پیش میں رہنے والوں کو تنبیہ کریں اور اجتماع (قیامت) کے دن بارے میں بھی(تنبیہ کریں) جس میں کوئی شبہ نہیں ہے، (اس روز) ایک گروہ کو جنت جانا ہے اور دوسرے گروہ کو جہنم جانا ہے ۔

اُمَّ الۡقُرٰی یعنی بستیوں کے مرکز سے مراد مکہ ہے۔ آیت کے سیاق سے مستشرقین نے یہ عندیہ لینے کی کوشش کی ہے کہ شروع میں محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف مکہ اور گرد و پیش کے علاقوں تک اپنی دعوت کو محدود رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے! اس کا جواب ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ اول تو اسلامی دعوت تدریجاً عمل میں آتی رہی ہے، یعنی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو، پھر ام القری والوں کو پھر گرد و پیش والوں کو، پھر سارے جہاں کے رہنے والوں کو دعوت دی۔ چنانچہ مکہ ہی میں نازل ہونے والے سورہ الفرقان میں فرمایا: تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا ۔ (فرقان: 1) یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر قرآن اتارا تاکہ وہ سارے جہاں کے لیے تنبیہ ہو نیز مکی سورئہ صٓ آیت 87 میں فرمایا: اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ۔ مکی سورہ القلم آیت 52 میں فرمایا: وَمَا ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ نیز مکی سورہ التکویر آیت 27 میں فرمایا: اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ۔

وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَہُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ یُّدۡخِلُ مَنۡ یَّشَآءُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ وَ الظّٰلِمُوۡنَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۸﴾

۸۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے نہ کوئی سرپرست ہے اور نہ مددگار۔

8۔ اگر اللہ چاہتا تو کسی نبی کو مبعوث نہ فرماتا۔ اس صورت میں سب لوگ کافر رہتے اور ایک ہی امت۔ لیکن اللہ نے ایسا نہ چاہا، پیغمبروں کو مبعوث فرمایا۔ نتیجتاً لوگ کفر و ایمان میں بٹ گئے۔

دوسری تفسیر یہ ہے: اگر اللہ چاہتا تو سب ایمان لے آتے اور لوگ ایمان پر امت واحدہ بن جاتے۔ مگر اللہ نے ایسا نہ چاہا۔ کیونکہ سب کو ایمان پر متحد کرنے کے لیے جبر استعمال کرنا پڑتا۔ اللہ نے یہ چاہا کہ لوگوں کو اختیار و انتخاب میں آزادی دی جائے۔ ہدایت کا راستہ دکھایا جائے۔ اس پر چلنے اور نہ چلنے کا فیصلہ خود انسان خود مختارانہ طریقے سے کرے۔ اگر جبر سے کام لینا تھا تو انبیاء کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے لیے اللہ کا ایک ارادہ تکوینی کافی تھا، جس سے سب انسان قہراً مومن بن جاتے۔

اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ۚ فَاللّٰہُ ہُوَ الۡوَلِیُّ وَ ہُوَ یُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ٪﴿۹﴾

۹۔ کیا انہوں نے اللہ کے علاوہ سرپرست بنا لیے ہیں؟ پس سرپرست تو صرف اللہ ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔

وَ مَا اخۡتَلَفۡتُمۡ فِیۡہِ مِنۡ شَیۡءٍ فَحُکۡمُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبِّیۡ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ٭ۖ وَ اِلَیۡہِ اُنِیۡبُ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور تم جس بات میں اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہو گا وہی میرا رب ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔