آفاقی نبوت کی تدریجی تبلیغ


وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا وَ تُنۡذِرَ یَوۡمَ الۡجَمۡعِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَرِیۡقٌ فِی الۡجَنَّۃِ وَ فَرِیۡقٌ فِی السَّعِیۡرِ﴿۷﴾

۷۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن بھیجا ہے تاکہ آپ مکہ اور اس کے گرد و پیش میں رہنے والوں کو تنبیہ کریں اور اجتماع (قیامت) کے دن بارے میں بھی(تنبیہ کریں) جس میں کوئی شبہ نہیں ہے، (اس روز) ایک گروہ کو جنت جانا ہے اور دوسرے گروہ کو جہنم جانا ہے ۔

اُمَّ الۡقُرٰی یعنی بستیوں کے مرکز سے مراد مکہ ہے۔ آیت کے سیاق سے مستشرقین نے یہ عندیہ لینے کی کوشش کی ہے کہ شروع میں محمد ﷺ صرف مکہ اور گرد و پیش کے علاقوں تک اپنی دعوت کو محدود رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے! اس کا جواب ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ اول تو اسلامی دعوت تدریجاً عمل میں آتی رہی ہے، یعنی رسول ﷺ نے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو، پھر ام القری والوں کو پھر گرد و پیش والوں کو، پھر سارے جہاں کے رہنے والوں کو دعوت دی۔ چنانچہ مکہ ہی میں نازل ہونے والے سورہ الفرقان میں فرمایا: تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا ۔ (فرقان: 1) یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر قرآن اتارا تاکہ وہ سارے جہاں کے لیے تنبیہ ہو نیز مکی سورئہ صٓ آیت 87 میں فرمایا: اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ۔ مکی سورہ القلم آیت 52 میں فرمایا: وَمَا ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ نیز مکی سورہ التکویر آیت 27 میں فرمایا: اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ۔