آیت 8
 

وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَہُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ یُّدۡخِلُ مَنۡ یَّشَآءُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ وَ الظّٰلِمُوۡنَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۸﴾

۸۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے نہ کوئی سرپرست ہے اور نہ مددگار۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ: اگر اللہ چاہتا تو کسی نبی کو مبعوث نہ کرتا۔ اس صورت میں سب لوگ کافر رہتے اور ایک ہی امت ہوتی لیکن اللہ نے ایسا نہ چاہا۔ پیغمبروں کو مبعوث فرمایا۔ نتیجتاً لوگ کفر و ایمان میں بٹ گئے۔

دوسری تفسیر یہ ہے: اگر اللہ چاہتا تو سب ایمان لے آتے:

وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ (۱۶ نحل: ۹)

اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کرتا۔

اور لوگ ایمان پر امت واحدہ بن جاتے مگر اللہ نے ایسا نہ چاہا کیونکہ سب کو ایمان پر متحد کرنے کے لیے جبر استعمال کرنا پڑتا تھا۔ اللہ نے یہ چاہا کہ لوگوں کو اختیار و انتخاب میں آزادی دی جائے۔ ہدایت کا راستہ دکھایا جائے۔ اس پر چلنے نہ چلنے کا فیصلہ خود انسان، خود مختارانہ طریقے سے کرے۔ اگر جبر سے کام لینا تھا تو انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے لیے اللہ کا ایک ارادہ تکوینی کافی تھا جس سے سب انسان قہراً مؤمن بن جاتے۔ قہراً مومن بنانے کے لیے اختیار و ارادہ سلب کرنا پڑتا۔ اس صورت میں انسان، انسان نہ رہتا، جمادات بن جاتا۔

۲۔ وَّ لٰکِنۡ یُّدۡخِلُ مَنۡ یَّشَآءُ: جو ہدایت قبول کرتے ہیں انہیں اپنی رحمت میں داخل کیا جاتا ہے اور جن لوگوں نے اپنے نفس کے ساتھ انصاف نہیں کیا انہیں رحمت خدا نہ ملنے کی وجہ سے کسی دوسرے حوالے سے مددگار نہیں ملے گا۔

صدر اور ذیل آیت، آیت کی ابتدا اور انتہا میں ربط کے اعتبار سے دوسری تفسیر زیادہ قرین سیاق ہے تاہم پہلی تفسیر کو قطعی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔


آیت 8