وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَہُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ یُّدۡخِلُ مَنۡ یَّشَآءُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ وَ الظّٰلِمُوۡنَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۸﴾

۸۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے نہ کوئی سرپرست ہے اور نہ مددگار۔

8۔ اگر اللہ چاہتا تو کسی نبی کو مبعوث نہ فرماتا۔ اس صورت میں سب لوگ کافر رہتے اور ایک ہی امت۔ لیکن اللہ نے ایسا نہ چاہا، پیغمبروں کو مبعوث فرمایا۔ نتیجتاً لوگ کفر و ایمان میں بٹ گئے۔

دوسری تفسیر یہ ہے: اگر اللہ چاہتا تو سب ایمان لے آتے اور لوگ ایمان پر امت واحدہ بن جاتے۔ مگر اللہ نے ایسا نہ چاہا۔ کیونکہ سب کو ایمان پر متحد کرنے کے لیے جبر استعمال کرنا پڑتا۔ اللہ نے یہ چاہا کہ لوگوں کو اختیار و انتخاب میں آزادی دی جائے۔ ہدایت کا راستہ دکھایا جائے۔ اس پر چلنے اور نہ چلنے کا فیصلہ خود انسان خود مختارانہ طریقے سے کرے۔ اگر جبر سے کام لینا تھا تو انبیاء کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے لیے اللہ کا ایک ارادہ تکوینی کافی تھا، جس سے سب انسان قہراً مومن بن جاتے۔