آیت 7
 

وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا وَ تُنۡذِرَ یَوۡمَ الۡجَمۡعِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَرِیۡقٌ فِی الۡجَنَّۃِ وَ فَرِیۡقٌ فِی السَّعِیۡرِ﴿۷﴾

۷۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن بھیجا ہے تاکہ آپ مکہ اور اس کے گرد و پیش میں رہنے والوں کو تنبیہ کریں اور اجتماع (قیامت) کے دن بارے میں بھی(تنبیہ کریں) جس میں کوئی شبہ نہیں ہے، (اس روز) ایک گروہ کو جنت جانا ہے اور دوسرے گروہ کو جہنم جانا ہے ۔

تفسیر آیات

۱۔ اُمَّ الۡقُرٰی: بستیوں کا مرکز۔ اس سے مراد مکہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغ و ارشاد کا کام بہ تدریج کرنے کا حکم ملتا ہے۔ احکام کے بیان میں تدریجی حکمت عملی اختیار کرنے کا حکم ملتا ہے۔ اسی طرح لوگوں اور علاقوں میں اس پیغام کو تدریجاً پہنچانے کا حکم ملتا ہے۔

چنانچہ حکم ملتا ہے کہ ابتدا اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرو:

وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ﴿﴾ (۲۶ شعرا: ۲۱۴)

ااوراپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔

پھر عرب مشرکین کو یہ پیغام پہنچانے کا حکم ملتا ہے:

لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اُنۡذِرَ اٰبَآؤُہُمۡ فَہُمۡ غٰفِلُوۡنَ﴿﴾ (۳۶ یٰس :۶)

تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی تھی لہٰذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

اس آیت کا تعلق بھی اسی مرحلے سے ہے۔

اس کے بعد اپنی تبلیغ کا پورا حلقہ بیان فرمایا کہ پوری انسانیت اس حلقۂ تبلیغ میں شامل ہے:

وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ۔۔۔۔۔۔ (۶ انعام:۱۹)

اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں۔

مستشرقین نے اس آیت سے بھی اسلام پر حملہ کرنے کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے: شروع میں محمد صرف مکہ اور گرد و پیش کے علاقوں تک اپنی دعوت کو محدود رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

اس کا جواب ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ اول تو اسلامی دعوت تدریجاً عمل میں آتی رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں، پھر ام القری (مکہ) والوں، پھر گرد و پیش والوں، ،پھر سارے جہاں کے رہنے والوں کو دعوت دی۔ چنانچہ مکہ میں نازل ہونے والے سورہ فرقان آیت۱ میں فرمایا:

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ﴿﴾

بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر قرآن اتارا تاکہ وہ سارے جہاں کے لیے تنبیہ ہو۔

اور مکی سورہ ص آیت ۸۷ میں فرمایا اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿﴾ مکی سورہ قلم آیت ۵۲ وَ مَا ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿﴾ نیز مکی سورہ تکویر آیت ۲۷ میں فرمایا: اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿﴾

۲۔ وَ تُنۡذِرَ یَوۡمَ الۡجَمۡعِ: اور روزِ قیامت کے بارے میں تنبیہ کرو جس میں تمام انسانوں کو جمع کیا جائے گا۔ قیامت کی ہولناکیوں میں ایک مسئلہ یہی ہے کہ انسان کو سب کے سامنے اللہ کی بارگاہ میں حساب دینا ہے۔ دعاؤں میں آیا ہے:

الہی لا تظہر خطیئتی و لا تفضحنی علی رؤس الاشہاد من العالمین۔ (بحار ۹۴: ۲۲۸)

میرے معبود! میری خطاؤں کو فاش اور پورے عالم میں مجھے سر عام رسوا نہ فرما۔

۳۔ فَرِیۡقٌ فِی الۡجَنَّۃِ وَ فَرِیۡقٌ فِی السَّعِیۡرِ: اس میدان میں سب کو جمع کرنے کے بعد ایک گروہ کو سب کے سامنے بڑے احترام و عزت، فخر و مباہات کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے گا اور دوسرا گروہ بڑی رسوائی اور ذلت و خواری کے ساتھ جہنم کی طرف ہانک دیا جائے گا۔


آیت 7