بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورﮤ رعد

اپنے مضامین و اسلوب خطاب کی روشنی میں اس سورت کا مکی ہونا واضح ہے۔ اگرچہ بعض روایات اور بعض مصاحف میں اس سورت کو مدنی کہا گیا ہے۔ سورہ رعد باقی مکی سورتوں کی طرح بیشتر توحید، رسالت اور معاد پر گفتگو کرتا ہے، لیکن اس سورہ میں جو طرز کلام اور آہنگ سخن و طریقہ استدلال اختیار کیا گیا ہے وہ باقی سورتوں سے منفرد ہے کہ ایک ہی موضوع پر کئی بار گفتگو ہوتی ہے لیکن ہر مرتبہ انداز سخن جدید اور طرز استدلال نرالا ہے۔

الٓـمّٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ ؕ وَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ الۡحَقُّ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱﴾

۱۔ الف لام میم را، یہ کتاب کی آیات ہیں اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

1۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی حقانیت کے اثبات سے سورہ کا افتتاح ہو رہا ہے کہ اس کتاب یعنی قرآن کے مضامین خود گواہ ہیں کہ یہ مبنی بر حق ہیں۔ اس قسم کی آیات کسی بشر کی ساختہ و بافتہ نہیں ہو سکتیں۔ اس بات کو زندہ ضمیر کا مالک انسان سمجھ سکتا ہے اور سمجھ لیتا بھی ہے اور ایمان لاتا ہے، لیکن اکثر اس حقیقت کو نہیں مانتے۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو تمہیں نظر آنے والے ستونوں کے بغیر بلند کیا پھر اس نے عرش پر سلطنت استوار کی اور سورج اور چاند کو مسخر کیا، ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت کے لیے چل رہا ہے، وہی امور کی تدبیر کرتا ہے وہی نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے شاید تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔

2۔ اس آیہ شریفہ میں چند ایسے شواہد کا ذکر ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک شعور اور ارادہ قائم ہے۔ آسمانوں کو نامرئی اور غیر محسوس ستونوں پر قائم کیا۔ یعنی ستونوں کی نفی نہیں ہے، بلکہ روئیت کی نفی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسمان غیر مرئی ستونوں پر قائم ہیں۔ اب تک کی فہم کے مطابق یہ ستون جاذبہ و دافعہ کا تعادل ہے۔ اجرام فلکی دو چیزوں پر مشتمل ہیں: ایک ان کا حجم مادی اور دوسری ان کی حرکت۔ حرکت کی وجہ سے دفع و فرار از مرکز، وجود میں آتا ہے اور اجرام کی وجہ سے جذب و کشش وجود میں آتی ہے۔ ان دونوں میں تعادل وہ غیر مرئی ستون ہیں جن پر اجرام فلکی قائم ہیں۔ لہٰذا اب تک کی انسانی فہم کے مطابق یہ تعادل وہ غیر مرئی ستون ہیں جن پر آسمان قائم ہے، لہٰذا آسمان سے مراد اجرام فلکی ہی ہو سکتے ہیں۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ مَدَّ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡہٰرًا ؕ وَ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیۡہَا زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔ اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر طرح کے پھلوں کے دو جوڑے بنائے، وہی رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

وَ فِی الۡاَرۡضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنۡ اَعۡنَابٍ وَّ زَرۡعٌ وَّ نَخِیۡلٌ صِنۡوَانٌ وَّ غَیۡرُ صِنۡوَانٍ یُّسۡقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ ۟ وَ نُفَضِّلُ بَعۡضَہَا عَلٰی بَعۡضٍ فِی الۡاُکُلِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔ اور زمین میں باہم متصل ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں نیز کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ دوہرے تنے کے ہوتے ہیں اور کچھ دوہرے نہیں ہوتے، سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے لیکن پھلوں میں (لذت میں) ہم بعض کو بعض سے بہتر بناتے ہیں، عقل سے کام لینے والوں کے لیے یقینا ان چیزوں میں نشانیاں ہیں۔

4۔ زمین کے قطعات ایک دوسرے سے متصل ہوتے ہیں۔ یہ سب قطعات نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے متصل ہیں، بلکہ جن عناصر پر مشتمل ہیں ان میں بھی یہ ایک دوسرے کے قریب اور متشابہ ہیں۔

وَ اِنۡ تَعۡجَبۡ فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۬ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ اور اگر آپ کو تعجب ہوتا ہے تو ان (کفار) کی یہ بات تعجب خیز ہے کہ جب ہم خاک ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہوں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے منکر ہو گئے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں اور یہی جہنم والے ہیں جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

5۔ جو انسان ابتدا میں مٹی سے، پھر نطفہ سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے پیدا کیا گیا ہے، اس کے بارے میں یہ کہنا کس قدر تعجب خیز ہے کہ اسے دوبارہ مٹی سے کیسے پیدا کیا جائے گا۔ گویا وہ یہ مانتے ہیں کہ پہلی بار انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے، لیکن یہ انسان مٹی ہو جاتا ہے تو دوبارہ مٹی سے انسان پیدا نہیں ہو سکتا۔ تعجب یہاں ہے کہ دوبارہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہ خدائے عادل و حکیم کا انکار ہے کہ اگر معاد نہیں ہے تو اللہ نہ عادل رہتا ہے، نہ حکیم۔ یہ عقیدہ ایک قسم کی فکری بے مائیگی ہے، وہ مغلول الفکر اور اسیر تقلید ہیں۔ آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتے۔

وَ یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالسَّیِّئَۃِ قَبۡلَ الۡحَسَنَۃِ وَ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمُ الۡمَثُلٰتُ ؕ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُوۡ مَغۡفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلۡمِہِمۡ ۚ وَ اِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۶﴾

۶۔ اور یہ لوگ آپ سے بھلائی سے پہلے برائی میں عجلت چاہتے ہیں جب کہ ان سے پہلے عذاب کے واقعات پیش آ چکے ہیں اور آپ کا رب ظلم و زیادتی کے باوجود لوگوں سے یقینا درگزر کرنے والا ہے اور آپ کا رب یقینا سخت عذاب دینے والا (بھی) ہے۔

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ٪﴿۷﴾

۷۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں: اس شخص پر اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی نازل کیوں نہیں ہوتی؟ آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔

7۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ہاتھ سینے پر رکھ کر فرمایا: انا المنذر و لکل قوم ھاد و اوما بیدہ الی منکب علیّ و قال: انت الھادی یا علی بک یھتدی المھتدون ۔ یعنی المنذر میں ہوں ہر قوم کا ایک ہادی ہوتا ہے۔ پھر اپنا دست مبارک علی علیہ السلام کے کندھے پر رکھ کر فرمایا: یا علی علیہ السلام ! وہ ہادی آپ علیہ السلام ہیں۔ آپ علیہ السلام کے ذریعے ہدایت پانے والے ہدایت حاصل کریں گے۔ اس حدیث کو حضرت ابن عباس، ابوہریرہ، ابو برزہ اسلمی، جابر بن عبد اللہ انصاری، ابوفردہ سلمی، یعلی بن مرہ، عبد اللہ بن مسعود اور سعد بن معاذ نے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو المستدرک 3:129، تفسیر کبیر، تفسیر طبری، روح البیان وغیرہ۔ ابن طاؤس فرماتے ہیں: محمد بن عباس نے اس حدیث کو 50 طرق سے نقل کیا ہے۔

اَللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَحۡمِلُ کُلُّ اُنۡثٰی وَ مَا تَغِیۡضُ الۡاَرۡحَامُ وَ مَا تَزۡدَادُ ؕ وَ کُلُّ شَیۡءٍ عِنۡدَہٗ بِمِقۡدَارٍ﴿۸﴾

۸۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر مادہ (مونث) کیا اٹھائے ہوئے ہے اور ارحام کیا گھٹاتے اور کیا بڑھاتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز کی ایک (معین) مقدار ہے۔

8۔ ماورائے رحم میں تخم مادر اور جرثومہ پدر کے جفت ہونے سے نطفہ ٹھہرتا ہے اور مرد کے ایک مکعب سینٹی میٹر نطفہ میں ایک سو میلین جرثومے موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ y اور کچھ x ہوتے ہیں، جبکہ عورت کے تخم میں صرف x ہوتے ہیں۔ اگر باپ کا y ماں کے xکے ساتھ جفت ہو جائے تو لڑکا پیدا ہو گا اور اگر باپ کا x ماں کے x کے ساتھ جفت ہو تو لڑکی پیدا ہو گی۔ لیکن: ٭یہ بات صرف اللہ جانتا ہے کہ ان سو میلین جرثوموں میں سے کون سا جرثومہ تخم مادر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گا۔٭ اللہ ہی کے علم میں ہے کہ آنے والا بچہ ان ایک سو میلین خاصیتوں میں سے کس خاصیت کا حامل ہے، چونکہ ان ایک سو میلین جرثوموں میں سے ہر ایک کی خاصیت جدا ہے۔ ٭وہ کون سا محرک ہے جس کے تحت یہ جاندار اس تخم کی طرف دوڑتے ہیں اور اس میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں؟٭ انسان تو جانداروں کی کائنات میں ہر مادہ کو جاننے سے قاصر ہے، یہ کیسے جان سکتا ہے کہ ہر مادہ کیا اٹھانے والی ہے؟ اگر رحم میں تخلیق کی تکمیل کے بعد انسان کو کچھ علم حاصل ہوا ہے تو یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ رحم کا حال تو انسان بھی جاننے لگا ہے۔

عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ الۡکَبِیۡرُ الۡمُتَعَالِ﴿۹﴾

۹۔ (وہ ) پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کا جاننے والا بزرگ برتر ہے۔

سَوَآءٌ مِّنۡکُمۡ مَّنۡ اَسَرَّ الۡقَوۡلَ وَ مَنۡ جَہَرَ بِہٖ وَ مَنۡ ہُوَ مُسۡتَخۡفٍۭ بِالَّیۡلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّہَارِ﴿۱۰﴾

۱۰۔ تم میں سے کوئی آہستہ بات کرے یا آواز سے اور کوئی پردہ شب میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں (سرعام) چل رہا ہو (اس کے لیے) برابر ہے۔