آیت 8
 

اَللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَحۡمِلُ کُلُّ اُنۡثٰی وَ مَا تَغِیۡضُ الۡاَرۡحَامُ وَ مَا تَزۡدَادُ ؕ وَ کُلُّ شَیۡءٍ عِنۡدَہٗ بِمِقۡدَارٍ﴿۸﴾

۸۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر مادہ (مونث) کیا اٹھائے ہوئے ہے اور ارحام کیا گھٹاتے اور کیا بڑھاتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز کی ایک (معین) مقدار ہے۔

تشریح کلمات

تَغِیۡضُ:

( غ ی ض ) یہ نقص کی طرح لازم و متعدی دونوں طرح آتا ہے۔ لہٰذا اس کے معنی کسی چیز کو کم کرنے یا از خود کم ہونے کے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَحۡمِلُ: اس آیت میں اللہ انسان کی تخلیق کی باریکیوں کا ذکر فرماتا ہے کہ اللہ ان باریکیوں کو جانتا ہے اور یہی دلیل ہے کہ ان کا خالق اللہ ہے۔

۲۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر مادہ کیا اٹھائے ہوئے ہے۔ انسانی تجربات نے اس بات کا کھوج لگا لیا کہ ماورائے رحم، عورت کے تخم اور مرد کے نطفہ میں موجود منوی جاندار کے جفت ہونے سے نطفہ ٹھہرتا ہے۔ مرد کے نطفہ میں موجود کروڑوں منوی جانداروں میں سے صرف ایک جانور تخم میں داخل ہونے میں کامیاب ہوتا ہے۔

باپ کا منوی حیوان Y کا حامل ہوتا ہے یا ایکس (X) کا اور ماں کا تخم صرف (X) کا حامل ہوتا ہے۔ اگر باپ کا (Y) ماں کے (X) کے ساتھ جفت ہو جائے تو لڑکا پیدا ہو گا اور اگر باپ کا Xماں کے X کے ساتھ جفت ہوگیا تو لڑکی پیدا ہو گی۔

اس کا بھی پتہ چلاہے کہ ایک سینٹی میٹر مکعب نطفے میں ایک سو ملین منوی جاندار موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے صرف 500 منوی جاندار تخم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک منوی جاندار تخم کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ بھی معلوم کر لیا گیا ہے کہ ان ایک سو ملین جانوروں میں ہر ایک کی خاصیت دوسرے سے جدا ہے لیکن:

i۔ صرف اللہ جانتا ہے کہ ان ایک سو ملین جانوروں میں سے کون سا جانور تخم مادر میں داخل ہونے میں کامیاب ہونے والا ہے۔

ii۔ اللہ ہی کے علم میں ہے کہ آنے والا بچہ ان ایک سو ملین خاصیتوں میں سے کس خاصیت کا مالک ہے۔

iii۔ وہ کون سا محرک ہے جس کے تحت یہ جانور اس تخم کی طرف دوڑتے اور اس میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

iv۔ انسان تو جانداروں کی کائنات میں ہر مادہ کو جاننے سے قاصر ہے۔ وہ کیسے جان سکتا ہے کہ ہر مادہ کیا اٹھانے والی ہے؟ اگر جدید انکشافات کے ذریعے بعض جانداروں کے رحم کا کچھ جزئی حال معلوم کر لیا گیا ہے تو بھی ہر مادہ کے رحم کا حال جاننے سے انسان قاصر ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض سرے سے وارد ہی نہ ہو گا کہ رحم کا کچھ حال تو انسان بھی جاننے لگے ہیں۔

۳۔ رحم کے عمل کو اللہ ہی جانتا ہے کہ کن چیزوں میں کمی پیدا کر دیتا ہے اور کن چیزوں میں اضافہ کرتا ہے۔

ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ رحم میں جنین کی پرورش کرنے کے لیے بعض چیزوں میں کمی اور بعض چیزوں میں اضافے کی ضرورت ہوتی ہے اور نطفہ ٹھہرنے کے بعد رحم یہ کام انجام دیتا ہے۔ جنین کی تربیت و پرورش کے لیے رحم کی فعالیت نہایت حیرت انگیز ہے جو اہل مطالعہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ممکن یہ فعالیت تَغِیۡضُ اور تَزۡدَادُ بعض مواد میں کمی اور بعض مواد میں اضافے پر مشتمل ہو۔ اس موضوع پر تفصیل کے لیے رجوع فرمائیں: الطب محراب للایمان ۔

بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد مدت حمل میں کمی اور زیادتی ہے۔ امام مالک کے نزدیک زیادہ سے زیادہ مدت حمل پانچ سال ہے۔ (ان کو چاہیے بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اسے سکول بھیجنے کے لیے کتابیں، بستہ تیار رکھیں) ۔ شافعی کے نزدیک چار سال اور ابو حنیفہ کے نزدیک دو سال ہے۔ تجرباتی اعداد و شمار کے مطابق جنین ماں کے شکم میں ۳۰۸ دن سے زیادہ نہیں رہ سکتا۔ فقہ جعفریہ کے مطابق بعض فقہاء کے نزدیک یہ مدت ۹ ماہ، بعض کے نزدیک دس ماہ اور بعض کے نزدیک ایک سال ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ہے۔

۴۔ وَ کُلُّ شَیۡءٍ عِنۡدَہٗ بِمِقۡدَارٍ: اللہ کا کائناتی نظام اندھی بانٹ نہیں، مقدر شدہ نظام ہے اور ہر چیز کے حدود اربعہ کا تعین پہلے سے ہے۔ وَ کُلُّ شَیۡءٍ ۔ کائنات میں ہر شیء کا تعین اور اسی کی تشکیل، عناصر کی ترکیب سے ہوتی ہے اور وہ شیء کے لیے معین ہے۔ اس معین مقدار سے کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں وہ چیز نہیں بنے گی۔

اہم نکات

۱۔ مخلوقات کی باریکیوں کا علم، دلیل خالقیت ہے۔

۲۔ حمل اور رحم ، مظاہر قدرت الٰہی ہیں۔

۳۔ رحم جن چیزوں میں کمی اور اضافہ کرتا ہے وہ اللہ کے مقررہ نظام کے تحت ہے: وَ کُلُّ شَیۡءٍ عِنۡدَہٗ بِمِقۡدَارٍ ۔


آیت 8