آیت 5
 

وَ اِنۡ تَعۡجَبۡ فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ ءَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا ءَ اِنَّا لَفِیۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ ۬ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۵﴾

۵۔ اور اگر آپ کو تعجب ہوتا ہے تو ان (کفار) کی یہ بات تعجب خیز ہے کہ جب ہم خاک ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہوں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے منکر ہو گئے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں اور یہی جہنم والے ہیں جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِنۡ تَعۡجَبۡ فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ: جو انسان ابتدا میں مٹی، پھر نطفے، پھر خون کے لوتھڑے، پھر گوشت کی بوٹی سے پیدا کیا گیا ہے (سورۃ الحج کی آیت ۵ سے اقتباس) اس کے بارے میں یہ کہنا کس قدر تعجب خیز ہے کہ اسے دوبارہ مٹی سے کیسے پیدا کیا جائے گا۔ گویا وہ یہ مانتے ہیں کہ پہلی بار انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے لیکن یہ انسان مٹی ہو جانے کے بعد دوبارہ مٹی سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ تعجب اس پر ہے کہ دوبارہ کیوں نہیں پیدا ہو سکتا؟ جبکہ پہلی بار اللہ نے اسی مٹی سے نطفہ، پھر خون کا لوتھڑا، پھر گوشت کا ٹکڑا، پھر انسان بنایا ہے۔

۲۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ: یہ خدائے عادل و حکیم کا انکار ہے کہ اگر معاد نہیں ہے تو اللہ عادل رہتا ہے اور نہ حکیم۔ یہ عقیدہ ایک قسم کی فکری بے مائیگی ہے کہ وہ مغلول الفکر اور اسیر تقلید ہیں۔ آزادنہ غور و فکر نہیں کر سکتے۔

۳۔ اُولٰٓئِکَ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ: دنیا میں جہل وجمود کا طوق ان لوگوں کی گردنوں میں ہے اور آخرت میں وہ آتش جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں ان کو آخرت پر یقین آئے گا۔

اہم نکات

۱۔ عقیدہ آخرت کا منکر صرف کافر نہیں بلکہ اس کا انکار مضحکہ ہے: فَعَجَبٌ قَوۡلُہُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ زندگی کو صرف اسی دنیا پر منحصر جاننا، فکری بے مائیگی کی علامت ہے: اُولٰٓئِکَ الۡاَغۡلٰلُ ۔۔۔۔


آیت 5