مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡلِیَآءَ کَمَثَلِ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۖۚ اِتَّخَذَتۡ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی بنایا ہے ان کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جو اپنا گھر بناتی ہے اور گھروں میں سب سے کمزور یقینا مکڑی کا گھر ہے اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔

41۔ اس کائنات میں قوت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ اگر کسی کے پاس کوئی طاقت موجود ہے تو اسی سرچشمے سے متصل اور اسی طاقت کے ذیل میں واقع ہونے کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی اس سلسلے سے باہر چلا جاتا ہے تو اس کی بے ثباتی اور ناتوانی مکڑی کے جالے کی طرح ہے، جو معمولی چوٹ کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۴۲﴾

۴۲۔ یہ لوگ اللہ کے علاوہ جس چیز کو پکارتے ہیں اللہ کو یقینا اس کا علم ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا،حکمت والا ہے۔

وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ ۚ وَ مَا یَعۡقِلُہَاۤ اِلَّا الۡعٰلِمُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں مگر ان کو علم رکھنے والے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔

43۔ عام سطحی ذہن ان مثالوں میں مشبہ بہ (جس کی تشبیہ دی گئی ہے) کی طرف جاتا ہے۔ وہ عظیم ہے تو تمثیل عظیم، وہ حقیر ہے تو تمثیل حقیر ہے۔ جب کہ اہل علم کا ذہن وجہ شبہ کی طرف جاتا ہے۔ مکڑی کی مثال میں عامۃ الناس کا ذہن مکڑی کی طرف اور اہل علم کا ذہن نا پائیداری کی طرف جاتا ہے، جس سے اس مثال کی لطافت سمجھ میں آتی ہے۔

خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، اس میں ایمان والوں کے لیے یقینا ایک نشانی ہے۔

اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ (اے نبی) آپ کی طرف کتاب کی جو وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور تم جو کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

45۔ دن میں پانچ مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں جانے والا شخص اپنے آپ کو ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر پاتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں بیٹھ کر بے حیائی اور برائی کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ البتہ ارتکاب گناہ ناممکن نہیں، ارتکاب کرنا ممکن رہ جاتا ہے۔ مگر جس کے دل میں یہ شعور بیدار ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہے وہ جرم کے ارتکاب سے شرماتا اور ڈرتا ہے۔ نماز نمازی کے ضمیر کو بیدار رکھتی ہے جس سے گناہ کا احساس بھی زندہ رہتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر بہت سے نمازی بدعمل کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نماز برائیوں سے روکنے کے لیے علت تامہ نہیں ہے، مقتضی ہے۔ مثلاً دوستی کسی کی حمایت کے لیے مقتضی ہے، علت تامہ نہیں۔ ممکن ہے دیگر تقاضوں سے متصادم باتوں کی وجہ سے دوستی کے تقاضے پورے نہ ہوں۔ پھر نماز اگر صرف عادت کے طور پر پڑھی جائے، ضمیر اور وجدان نماز نہ پڑھے تو ایسی نمازوں کے اثرات بھی کمزور ہوتے ہیں۔

لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ : نماز اللہ کا ذکر ہے اور ذکر خدا فحشاء و منکر کو دور کرنے سے بڑا ہے یا تمام اعمال سے بڑا ہے یا قابل وصف و بیان سے بڑا ہے۔

وَ لَا تُجَادِلُوۡۤا اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ٭ۖ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ وَ اِلٰـہُنَا وَ اِلٰـہُکُمۡ وَاحِدٌ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور تم اہل کتاب سے مناظرہ نہ کرو مگر بہتر طریقے سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں اور کہدو کہ ہم اس (کتاب) پر ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس (کتاب) پر بھی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔

46۔ اس آیت میں اصول مناظرہ بیان فرمایا ہے کہ کسی سے اگر مناظرہ کرنا ہو تو اختلافی مسائل کو پیش کرنے کی بجائے فریقین میں مشترکات کو زیر بحث لانا چاہیے۔ ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے۔ پھر اس بات پر بحث ہو کہ اس قدر مشترک پر کون سا فریق قائم ہے۔

وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ۚ وَ مِنۡ ہٰۤؤُلَآءِ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِہٖ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے، پس جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان لوگوں میں سے بھی بعض اس پر ایمان لے آئے ہیں اور صرف کفار ہی ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں۔

وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور (اے نبی) آپ اس (قرآن) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شبہ کر سکتے تھے۔

48۔ اگر مشرکین نے کبھی حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پڑھتے اور لکھتے دیکھ لیا ہوتا تو انہیں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا بہانہ مل جاتا کہ یہ قرآن وحی نہیں ہے بلکہ دوسری کتابوں سے ماخوذ ہے۔ واضح رہے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سیاہی کی لکیروں کو نہیں پڑھتے تھے جو انسانوں کی کھینچی ہوئی ہیں،کیونکہ آپ کا علم ان سے ما وراء تھا۔ وہ لوح محفوظ کی تحریریں پڑھ کر آئے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ ان تحریروں کو بھی پڑھ اور لکھ سکتے تھے۔ قرآن میں امکان اور صلاحیت کی نفی نہیں ہے، بلکہ وقوع کی نفی ہے کہ آپ ان کتابوں کے محتاج نہ تھے، لہٰذا ان کو پڑھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا، نہ یہ کہ پڑھنے سے معذور تھے۔ معاندین اسلام، رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں اصرار کرتے ہیں کہ وہ پڑھتے اور لکھتے تھے، جبکہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر لکھتے اور پڑھتے ہوتے تو مکے کے ناخواندہ معاشرے میں یہ بات نمایاں طور پر سب کو معلوم ہوتی اور آج کل کے معاندین کی بہ نسبت مکہ کے معاندین کو اس الزام کی زیادہ ضرورت تھی۔

بَلۡ ہُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیۡ صُدُوۡرِ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ بلکہ یہ روشن نشانیاں ان کے سینوں میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیات کا انکار وہی کرتے ہیں جو ظالم ہیں۔

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور لوگ کہتے ہیں: اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں؟ کہدیجئے: نشانیاں تو بس اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔

50۔ نشانیاں یعنی معجزے۔ منکرین یہ خیال کرتے تھے کہ جو بھی دعوائے نبوت کرتا ہے اس کے ہاتھ میں ساری غیبی طاقت موجود ہوا کرتی ہے۔ اس آیت میں فرمایا: یہ غیبی طاقت اللہ کے پاس ہے۔