اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ (اے نبی) آپ کی طرف کتاب کی جو وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور تم جو کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

45۔ دن میں پانچ مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں جانے والا شخص اپنے آپ کو ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر پاتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں بیٹھ کر بے حیائی اور برائی کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ البتہ ارتکاب گناہ ناممکن نہیں، ارتکاب کرنا ممکن رہ جاتا ہے۔ مگر جس کے دل میں یہ شعور بیدار ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہے وہ جرم کے ارتکاب سے شرماتا اور ڈرتا ہے۔ نماز نمازی کے ضمیر کو بیدار رکھتی ہے جس سے گناہ کا احساس بھی زندہ رہتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر بہت سے نمازی بدعمل کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نماز برائیوں سے روکنے کے لیے علت تامہ نہیں ہے، مقتضی ہے۔ مثلاً دوستی کسی کی حمایت کے لیے مقتضی ہے، علت تامہ نہیں۔ ممکن ہے دیگر تقاضوں سے متصادم باتوں کی وجہ سے دوستی کے تقاضے پورے نہ ہوں۔ پھر نماز اگر صرف عادت کے طور پر پڑھی جائے، ضمیر اور وجدان نماز نہ پڑھے تو ایسی نمازوں کے اثرات بھی کمزور ہوتے ہیں۔

لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ : نماز اللہ کا ذکر ہے اور ذکر خدا فحشاء و منکر کو دور کرنے سے بڑا ہے یا تمام اعمال سے بڑا ہے یا قابل وصف و بیان سے بڑا ہے۔