آیت 45
 

اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ (اے نبی) آپ کی طرف کتاب کی جو وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور تم جو کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ: اس آیہ مبارکہ میں رسالتماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے دو حکم آئے ہیں۔ ایک تلاوت کتاب، دوسرا اقامہ نماز۔

تلاوت کتاب میں دعوت، تعلیم اور تربیت ہے۔ اسی لیے پہلے تلاوت کتاب کا حکم ہے کہ احکام کی ذمے داری ڈالنے سے پہلے لوگوں کو اس ذمے داری کو اٹھانے کے لیے ضروری تعلیم و تربیت دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لیے احکام کے نفاذ سے پہلے ایک مدت تک آیات قرآنی کی تبلیغ و ارشاد فرماتے رہے۔

۲۔ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ: الف۔ دن میں پانچ مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں جانے والا شخص اپنے آپ کو ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر پاتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں بیٹھ کر بے حیائی اور برائی کا ارتکاب نہیں کرتا۔ البتہ گناہ کا ارتکاب ممکن رہ جاتا ہے مگر جس کے دل میں شعور بیدار ہو کہ وہ اللہ کے حضور میں ہے وہ جرم کے ارتکاب سے شرماتا اور ڈرتا ہے۔

نماز، نمازی کا ضمیر بیدار رکھتی ہے جس سے گناہ کا احساس زندہ رہتا ہے۔ نماز اور عبادت سے انسان کا نفس پاکیزہ اور شفاف ہو جاتا ہے اور دل میں روشنی آ جاتی ہے جس سے برائی نمازی کے سامنے برائی کی شکل میں اور بے حیائی بے حیائی کی شکل میں آ جاتی ہے ورنہ شیطان بے حیائی کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے۔

وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ فَصَدَّہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ ۔۔۔۔۔ (۲۹ عنکبوت: ۳۸)

اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو آراستہ کیا اور انہیں راہ (راست) سے روکے رکھا۔

حدیث میں آیا ہے:

الصَّلَاۃُ قُرْبَانُ کُلِّ تَقِیَّ ۔۔۔۔۔ (الکافی ۳:۲۶۵)

نماز ہر متقی کے لیے ذریعہ قربت ہے۔

قرب الٰہی کے حصول سے ان چیزوں سے پرہیز کرنے کا شعور زیادہ ہو جاتا ہے جو اللہ سے دور کر دیتی ہیں۔

۳۔ تَنۡہٰی: میں النھی روکنے کے معنوں میں ہے۔ روکنے کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ نماز، نمازی کو برائی سے روکتی ہے۔ اس صورت کا ذکر ہو گیا ہے۔ دوسری صورت خود نماز برائی کو روکتی ہے، برائی کو دور کر دیتی ہے۔ یعنی نماز، نمازی کے ذمے برائی رہنے نہیں دیتی بلکہ دور کر دیتی ہے۔ اس پر سورۃ ہود کی آیت ۱۱۴ شاہدہے کہ اقامۂ نماز کے حکم کے بعد فرمایا: نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔

وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ (۱۱ ہود: ۱۱۴)

اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں اور رات کے کچھ حصوں میں، نیکیاں بیشک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے:

الصَّلاَۃُ اِلَی الصَّلَاۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَہُمَا ۔ (مستدرک الوسائل ۳: ۹۰)

نماز، ایک سے دوسری نماز کے درمیان واقع ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

صلوۃ اللیل کفارۃ لما اجترح بالنھار ۔ (بحار الانوار ۸۴: ۱۳۶)

رات کی نماز دن کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

اس طرح نماز بہترین نیکی اور بہترین کفارہ ہے جس سے گناہ دور ہو جاتے یا دھل جاتے ہیں۔

جو نماز بارگاہ الٰہی میں قبول ہوتی ہے اس نماز کے یہ نتائج ہوں گے: یہ بے حیائی اور برائی کو دور کر دیتی ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے جس میں آپؑ نے فرمایا:

من احب ان یعلم أ قبلت صلوتہ ام لم تقبل فلینظر ھل منعتہ صلاتہ عن الفحشآء والمنکر فبقدر ما منعتہ قبلت منہ ۔ (بحار الانوار ۱۶:۲۰۵)

جو یہ جاننا چاہے کہ اس کی نما قبول ہوئی ہے یا نہیں تو وہ یہ دیکھے کہ کیا اس کی نماز نے بے حیائی اور برائی کو دور کیا ہے۔ جس قدر دور کیا ہے اسی مقدار میں قبول ہوئی ہے۔

۴:نماز بے حیائی اور برائی کا قدرتی علاج نہیں ہے۔ نماز دوائی نہیں ہے کہ جس سے بے حیائی اور برائی کا درد ختم ہو جائے اور یہ سوال پیدا کیا جائے کہ اس کا فوری اثر نہ ہوا اور نماز کے باوجود بے حیائی اور برائی کا درد ختم نہیں ہو رہا بلکہ نماز کے اپنے اثرات ہیں جو کسی وقت بھی نمودار ہو سکتے ہیں۔

چنانچہ روایت ہے:

انصار کا ایک جواں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا لیکن وہ بے حیائی اور برائی کے ارتکاب سے باز نہیں آتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:

ان صلوتہ ستنھاہ

اس کی نماز عنقریب اسے روک دے گی۔

چنانچہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے توبہ کر لی۔ (روح المعانی ۱۰: ۳۶۸ ذیل آیہ)

المیزان میں اس جگہ لکھا ہے:

یہاں نمازی اور بے نمازی میں موازنہ ہونا چاہیے۔ بے نمازی کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نماز ترک کرنے کے ساتھ روزہ، حج، زکوٰۃ ، خمس اور دیگر دینی واجبات ترک کرتا ہے۔ پاک و نجس اور حلال و حرام میں فرق نہیں کرتا اور نہایت لاپرواہ ہے۔ پھر اگر آپ موازنہ کریں اس تارک الصلوۃ اور معمولی درجہ کے نمازی میں تو تارک الصلوۃ کی بہ نسبت اس نمازی کو بہت سی برائیوں سے پاک پائیں گے پھر جو زیادہ نماز کا پابند ہے اسے زیادہ پاکیزہ پائیں گے۔

۳۔ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ: ذکر خدا تو بہت بڑا ہے۔ ذکر خدا، خدا کے علاوہ تمام چیزوں سے بڑا ہے۔ نماز ذکر خدا ہے لہٰذا نماز سب سے بڑی ہے۔ ذکر خدا اللہ کی بندگی ہے۔ اللہ کی بندگی غرض تخلیق ہے۔ اس سے بڑی کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔ نماز اور ذکر خدا میں اللہ کی خوشنودی ہے۔

وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (۹ توبہ: ۷۲)

اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

۴۔ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ: اللہ کو خوب علم ہے ہماری حرکتوں، اعمال، ان اعمال کے اصل محرک، ان کی نوعیت، ان کے وزن، ان میں موجود خلوص اور دیگر تمام خصوصیات کا۔

اہم نکات

۱۔ نماز پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ہے۔

۲۔ ذکر خدا سے بڑی چیز کوئی نہیں۔


آیت 45