آیت 48
 

وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور (اے نبی) آپ اس (قرآن) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شبہ کر سکتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ اگر مشرکین نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھتے اور لکھتے دیکھ لیا ہوتا تو انہیں شکوک و شہبات پیدا کرنے کا بہانہ مل جاتا کہ یہ قرآن وحی نہیں ہے بلکہ دوسری کتابوں سے ماخوذ ہے۔

مشرکین مکہ نے رسول اللہ ؐ کے خلاف ہر الزام عائد کیا آپ کو سحر زدہ کہا گیا:

اِذۡ یَقُوۡلُ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا﴿﴾ (۱۷ بنی اسرائیل: ۴۷)

یہ ظالم کہتے ہیں: تم (لوگ) تو ایک سحرزدہ آدمی کی پیروی کرتے ہو۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جادوگر اور کذاب (بڑا جھوٹا) کہتے:

وَ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ (۳۸ ص: ۴)

اور کفار کہتے ہیں: یہ جھوٹا جادو گر ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجنون اور کاہن کہتے:

فَذَکِّرۡ فَمَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَّ لَا مَجۡنُوۡنٍ ﴿﴾ (۵۲ طور: ۲۹)

لہٰذا آپ نصیحت کرتے جائیں کہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاعر کہتے:

وَ یَقُوۡلُوۡنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوۡۤا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجۡنُوۡنٍ ﴿﴾ (۳۷ صافات: ۳۶)

اور کہتے تھے: کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں؟

یہ الزام بھی عائد کیا کہ آپ کو کوئی عجمی تعلیم دیتا ہے:

وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّہُمۡ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ ؕ لِسَانُ الَّذِیۡ یُلۡحِدُوۡنَ اِلَیۡہِ اَعۡجَمِیٌّ وَّ ہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیۡنٌ﴿﴾ (۱۶ نحل: ۱۰۳)

اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ لوگ ـ(آپ کے بارے میں) کہتے ہیں: اس شخص کو ایک انسان سکھاتا ہے، حالانکہ جس شخص کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن) تو واضح عربی زبان ہے۔

اس طرح ہر الزام عائد کیا لیکن ان الزامات میں یہ الزام شامل نہیں ہے کہ آپؐ کو لکھنا پڑھنا آتا ہے۔ اس قرآن کو دوسری کتابیں پڑھ کر بنایا ہے بلکہ ایک جگہ تو مشرکین نے اپنے الزام میں کہا ہے: یہ اگلوں کی داستانوں کو لکھواتا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ لکھتا ہے:

وَ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ اکۡتَتَبَہَا فَہِیَ تُمۡلٰی عَلَیۡہِ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿﴾ (۲۵ فرقان: ۵)

اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھوا رکھی ہیں اور جو صبح و شام اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔

اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھتے اور پڑھتے تو مکے کے ناخواندہ معاشرے میں جہاں پوری آبادی میں صرف سترہ افراد کو لکھنا آتا تھا، یہ بات نمایاں طور پر معلوم ہوتی اور آج کل کے معاندین کی بہ نسبت مکہ کے معاندین کو اس الزام کی زیادہ ضرورت تھی۔

واضح رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سیاہی کی لکیروں کو نہیں پڑھتے تھے جو انسانوں کی کھینچی ہوئی ہیں کیونکہ آپؐ کا علم ان سے ماوراء تھا۔ آپؐ لوح محفوظ کی تحریریں پڑھ کر آئے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ آپؐ ان تحریروں کو بھی پڑھ اور لکھ سکتے تھے۔ قرآن میں امکان اور صلاحیت کی نفی نہیں ہے بلکہ وقوع کی نفی ہے کہ آپؐ ان کتابوں کے محتاج نہ تھے لہٰذا انہیں پڑھنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا۔ نہ یہ کہ پڑھنے سے معذور تھے۔


آیت 48