بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورہ بنی اسرائیل

اس سورہ کا نام بنی اسرائیل مشہور ہے اور اسے سورہ الاسراء بھی کہتے ہیں۔ مشہور روایات کے مطابق اس سورہ کی تمام آیات مکہ میں نازل ہوئی ہیں، البتہ بعض روایات میں کچھ آیات کے بارے میں آیا ہے کہ مدینہ میں نازل ہوئیں ہیں۔ اس سورہ کی ابتدائی آیات یعنی آیت معراج سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ، معراج کے موقع پر نازل ہوا ہے اور یہ بات بھی تقریباً تسلیم شدہ ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل پیش آیا تھا۔ لہذا یہ سورہ ہجرت سے ایک سال قبل نازل ہوا ہے۔ اس سورہ کے مضامین مکی المزاج ہیں، جو اکثر توحید، نفی شرک اور معاد پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ اس سورہ میں بعض ایسی اخلاقی قدروں کے احیا کا ذکر ہے جن کو زمان جاہلیت میں پامال کیا جاتا تھا۔ مثلاً احترام والدین، تکبر سے اجتناب۔ کچھ اقتصادی اصول کا بھی ذکر ملتا ہے، مثلاً فضول خرچی کی ممانعت،اسراف اور بخل کے درمیان اعتدال کی صورت اختیار کرنے کا حکم۔ ناپ تول میں خیانت کی ممانعت وغیرہ۔

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ﴿۱﴾

۱۔ پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، یقینا وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

1۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو معراج پر لے جانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ اپنے حبیب کو اپنی نشانیاں اس طرح دکھانا چاہتا ہے کہ ایمان بالغیب کے ساتھ ایمان بالشہود کی منزل پر بھی فائز ہو جائیں۔ واضح رہے کہ شہود سے مراد سمعی و بصری ذرائع نہیں ہیں جن میں غلطی کا کوئی امکان رہتا ہو، بلکہ اس شہود سے مراد عقل و شعور، ضمیر، وجدان اور اپنے پورے وجود کے ساتھ مشاہدہ کرنا ہے جسے قرآن دل کا مشاہدہ قرار دیتا ہے: مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی جو کچھ مشاہدہ میں آیا دل نے اسے رد نہیں کیا۔ بالفاظ دیگر اس مشاہدے میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور نگاہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک جامع تعریف اس آیت میں آگئی: مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی نگاہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ تو (حقائق سے) ایک طرف ہٹی، نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا۔یعنی اس نگاہ نے حقائق کا کماحقہ مشاہدہ کیا۔ اس بیان کے بعد اس اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ معراج عالم خواب میں تھی یا بیداری میں۔ کیونکہ رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جس بیداری کی حالت میں آسمانی ملکوت کی سیر کرائی گئی، ایسی بیداری تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوا کسی نبی مرسل کو نصیب نہیں ہوئی۔

نیز ہمیں غیر زمانی حقائق کا ادراک کرنے کے لیے اپنے محدود زمانی و مکانی دائرے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ چنانچہ الکسس کارل کے مطابق افراد کو زمان و مکان میں محدود سمجھنا ایک مفروضہ ہے اور آئین سٹائن کے نظریہ اضافت کے مطابق زمان و مکان ہر جگہ یکساں نہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی چیز نور کی رفتار سے سفر کرے تو اس کے دس منٹ ہمارے سینکڑوں سالوں کے برابر ہوں گے۔ لہٰذا معراج کے بارے میں ہمارے نظام شمسی میں موجود رکاوٹوں کا ذکر اور ان کا جواب ایک غیر ضروری بحث ہے۔

وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾

۲۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت قرار دیا کہ میرے علاوہ کسی کو کارساز نہ بناؤ۔

ذُرِّیَّۃَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَبۡدًا شَکُوۡرًا﴿۳﴾

۳۔ اے ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں)سوار کیا تھا! نوح یقینا بڑے شکر گزار بندے تھے۔

وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا﴿۴﴾

۴۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ ضرور فساد برپا کرو گے اور ضرور بڑی طغیانی دکھاؤ گے۔

4۔ قرآن کے اس بیان کی تصدیق توریت و انجیل کی متعدد تنبیہات سے ہوتی ہے جن میں بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ تمہاری بدکاری اور فسق و فجور کی پاداش میں تمہارے شہر ویران کر دیے جائیں گے اور تمہاری لاشیں پرندوں اور درندوں کی خوراک ہوں گی۔

فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰىہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا﴿۵﴾

۵۔ پس جب دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا پھر وہ گھر گھر گھس گئے اور یہ پورا ہونے والا وعدہ تھا۔

5۔ یہ طاقتور جنگجو کون لوگ تھے؟ اس میں بہت اختلاف ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد بابل کا بادشاہ بخت نصر ہو جس نے یروشلم اور ہیکل سلیمانی تک کو زمین کے برابر کر دیا تھا۔

ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ جَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا﴿۶﴾

۶۔ پھر دوسری بار ہم نے تمہیں ان پر غالب کر دیا اور اموال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی۔

6۔ ممکن ہے اس آیت کا اشارہ بابل سے رہائی کے بعد کے واقعات کی طرف ہو۔ چنانچہ ایرانی بادشاہ کورش نے بابل فتح کیا اور اسرائیلیوں کو وطن واپس جانے کی اجازت مل گئی۔ حضرت عزیر علیہ السلام نے یہودی مذہب کی تجدید کی اور توریت کو از سر نو مرتب کیا۔

اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ اِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَہَا ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا﴿۷﴾

۷۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا۔ (تو ہم نے ایسے دشمنوں کو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہو جائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے بالکل تباہ کر دیں۔

7۔ خطاب اگرچہ بنی اسرائیل سے ہے تاہم یہ ایک کلیہ ہے کہ نیکی کے مثبت اثرات سب سے پہلے نیکی کرنے والے پر مرتب ہوتے ہیں، اسی طرح برائی کے منفی اثرات برائی کا ارتکاب کرنے والے پر مرتب ہوتے ہیں۔

حضرت حذیفہ کی ایک روایت کے مطابق فساد اول سے مراد بخت نصر کا حملہ اور فساد دوم سے مراد رومیوں کا حملہ ہے۔ رومیوں کا حملہ سنہ 70ء میں یروشلم پر ہوا، جس میں ایک لاکھ تینتیس ہزار افراد مارے گئے۔

عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا﴿۸﴾

۸۔ امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے گا اور اگر تم نے (شرارت) دہرائی تو ہم بھی (اسی روش کو) دہرائیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔

8۔ اللہ کی رحمت میں دریغ نہیں ہے، صرف اس رحمت کے لیے اہل ہونا شرط ہے۔ اگر بنی اسرائیل توبہ و انابت کے ساتھ اپنے آپ کو رحمت خدا کا اہل بنا دیں تو اللہ ان پر رحم کرے گا۔ وہ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ہے، لیکن جہاں اللہ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ ہے وہ شدید الانتقام بھی ہے کہ اگر تم نے پھر وہی سرکشی وہی نافرمانی وہی ظلم و بربریت کی روش اختیار کی تو ہم بھی وہی سلوک اختیار کریں گے کہ تم پھر قتل و اسیری اور ذلت و خواری سے دو چار ہو گے۔ ہمارے معاصر یہود انسان سوز جرائم کے ارتکاب کی پرانی روش پر گامزن ہیں۔ عُدۡتُّمۡ کا مرحلہ آگیا ہے اور ان شاء اللہ عنقریب وعدہ الہٰی کے مطابق عُدۡنَا کا مرحلہ آنے والا ہے۔

اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا ۙ﴿۹﴾

۹۔ یہ قرآن یقینا اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور ان مومنین کو جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

وَّ اَنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔