اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ اِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَہَا ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا﴿۷﴾

۷۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا۔ (تو ہم نے ایسے دشمنوں کو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہو جائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے بالکل تباہ کر دیں۔

7۔ خطاب اگرچہ بنی اسرائیل سے ہے تاہم یہ ایک کلیہ ہے کہ نیکی کے مثبت اثرات سب سے پہلے نیکی کرنے والے پر مرتب ہوتے ہیں، اسی طرح برائی کے منفی اثرات برائی کا ارتکاب کرنے والے پر مرتب ہوتے ہیں۔

حضرت حذیفہ کی ایک روایت کے مطابق فساد اول سے مراد بخت نصر کا حملہ اور فساد دوم سے مراد رومیوں کا حملہ ہے۔ رومیوں کا حملہ سنہ 70ء میں یروشلم پر ہوا، جس میں ایک لاکھ تینتیس ہزار افراد مارے گئے۔